
ورلڈ ٹریڈ سنٹر حملوں کو 21سال مکمل 'القاعدہ کیخلاف جنگ تاحال جاری
پشاور(خصوصی رپورٹ )امریکہ میں نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن کی وزارت پر مبینہ طور پر القاعدہ کے حملوں کو 21برس مکمل ہو گئے 'برسی کی مناسبت سے مختلف تقاریب کا انعقاد کیا گیا '11ستمبر 2001کے حملوں کے بعد دنیا میں بھی بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں '
حملے کے بعد امریکی قیادت میں اتحادی افواج نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز کرتے ہوئے سب سے پہلے افغانستان پر حملہ کرکے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا لیکن21سال بعد ایک بار پھر طالبان افغانستان میں اقتدار میں آگئے '
بظاہر تو طالبان امریکہ کو شکست دینے اور امریکہ ہی کو افغانستان سے بھگانے لے دعوے کر رہے ہیں مگر اندرونی طورپر حقیقت اس کے برعکس ہے'
اگست کے پہلے روز امریکہ کے مبینہ ڈرون طیارے نے کابل شہر کے انتہائی حساس رہائشی علاقے میں وزیر داخلہ اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کے گھر کو نشانہ بنا کر یہاں موجود القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا '
افغانستان کے دارالحکومت میں یہ مبینہ امریکی ڈرون حملہ اگر ایک طرف افغانستان میں القاعدہ کی واپسی کو ظاہر کرتا ہے تو دوسری طرف اس سے افغانستان ہی کی سرزمین پر موجود مبینہ عسکریت پسندوں کے خلاف امریکہ اور اتحادیوں کے جاری جنگ کو بھی ظاہر کرتا ہے'
اگست کے اوائل سے لیکر اب تک کابل اور قندھار سمیت افغانستان کے مختلف علاقوں میں نہ صرف امریکی ڈرون طیاروں کی پروازیں مسلسل جاری ہیں بلکہ کابل 'ارزگان اور ہلمند کے بعض مقامات پر ڈرون طیاروں کی مدد سے بم اور میزائل بھی داغے جا چکے ہیں'
ان حملوں میں مالی اور جانی نقصانات کی اطلاعات اسی وجہ سے حاصل نہیںہوسکیں کہ طالبان حکومت نے ذرائع ابلاغ پر بہت زیادہ پابندیاں عائد کر رکھی ہیں 'بتایا جاتا ہے کہ مبینہ امریکی ڈرون طیاروں کا ہدف اب وہ طالبان جنگجوں کمانڈر ہیں جو9/11 کے بعد افغانستان میں تعینات امریکی اور اتحادی افواج پرہلاکت خیز حملوں میں ملوث ہیں '
امریکہ نے طالبان کے ساتھ 29 مئی 2020 کو دوہا قطر میں معاہدہ کرنے کے باوجود دہشت گردوں کی عالمی فہرست سے افغانستان کے طالبان رہنماوں کے ناموں کو اقوام متحدہ کے بلیک لسٹ سے نہیں نکالا'
ان افراد میں طالبان تحریک کے موجودہ سربراہ کے علاوہ قائمقام وزیر داخلہ اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی سر فہرست ہے' یکم اگست کے مبینہ امریکی ڈرون طیارے کے حملے کے بعد وزیر داخلہ سراج الدین حقانی سمیت طالبان کے بہت سے رہنماوں کی سرگرمیاں محدود ہوچکی ہیں '
دوسری طرف امریکہ سمیت اقوام متحدہ کے تمام ممبر ممالک افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں' عالمی برادری طالبان سے تمام دیگر سیاسی سماجی اور مذہبی جماعتوں اور لسانی گروہوں کو حکومت میں شامل کرنے ' انسانی حقوق کے احترام' تمام لوگوں کے لئے یکساں انصاف پر مبنی عدالتی نظام اور سیاسی انتقام کے خاتمے پر زور دے رہی ہے'
طالبان ابھی تک ضد پر قائم ہیں'عالمی برادری کے تحفظات کے علاوہ طالبان کے خلاف شمالی علاقوں میں مسلح جبکہ جنوب اور مغربی علاقوں میں سخت سیاسی مخالفت کا سامنا ہے'
طالبان کی حکومت کو عالمی سطح پر سخت تنقید لڑکیوں کے اسکولوں کی بندش پر کی جا رہی ہے' اب تعلیم سے محروم لڑکیاں اپنے اس جائز حق کے لئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں جس سے عالمی سطح پر طالبان کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے'
طالبان کی حکومت پاکستان پر اندرونی اور بیرونی پالیسیاں کے وضع کرنے کے انحصار کے باعث علاقائی سطح پر اعتماد کھو رہی ہے جس کے نتیجے میں تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ افغانستان کی دو طرفہ تجارت اور تعلقات بھی متاثر ہورہے ہیں ۔