
حکومت ریاست اور عدالت سب اتنے بے بس کیوں ہیں ؟
محفوظ جان
میڈیا رپورٹر کے مطابق زمان پارک میں عمران خان کی گرفتاری کے لیے جانیوالی پولیس ٹیم کی پی ٹی آئی کے کارکنوں نے صیح درگت بنائی اور کسی بھی صورت پولیس کو آگے بڑھنے نہیں دیا گیا پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اپنے قائد کا دفاع کرتے ہوئے پولیس کا زبردست مقابلہ کیا ہے پولیس پر پتھر اور پٹرول بم پھینکے اور ڈنڈوں سے ان پر حملہ آور ہوئے جس سے ڈی آئی جی سمیت متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوئے کئی گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا اور قومی املاک کو نقصان پہنچایا گیا چند ایک پی ٹی آئی کارکن بھی گرفتار ہوئے اسلام آباد پولیس کی ٹیم عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں عدالتی حکم پر گرفتار کرنے کے لیے گئی تھی یاد رہے کہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو عدالت نے آٹھ مرتبہ بلایا اور دو مرتبہ انکے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری معطل ہوئے مگر وہ ایک مرتبہ بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے
مشرف دور میں یوسف رضا گیلانی تین سال جیل میں رہے ،افتخار چوہدری نے ان کو وزارت عظمی سے برطرف کیا تو اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی سے گھر بیٹھ گئے بے گناہ جاوید ھاشمی کو اسمبلی سے اٹھا کر جیل بھیج دیا گیا دوران اسیری انکو فالج ہوگیا صوبہ پختونخواہ میں پرویز خٹک نے عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین(تمغہ جرات)قتل کا جھوٹا الزام لگا کر پہلے مسلح بلوایوں کو ان پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا جہاں وہ بڑی مشکل سے اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوئے پھر اس جھوٹے مقدمے میں مقتول کے والد کی طرف سے خود مدعی بن کر میاں صاحب کے خلاف جھوٹی اور من گھڑت ایف آئی آر کاٹی گئی رات تین بجے انکو گھر سے گرفتار کروایا
توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی پیشی اور فرد جرم کا معاملہ تقریبا دو ماہ سے التوا کا شکار ہے۔ اس دوران عدالت نے کئی بار عمران خان کی طبی بنیادوں پر حاضری سے استثنی کی درخواست منظور کی 28 فروری کو پیش نہ ہونے کی وجہ سے عدالت نے پہلی بار ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔ توشہ خانہ ریفرنس کیس پر فوجداری کارروائی کا آغاز نومبر 2022 میں ہوا تھا۔ کارروائی کے لیے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر نے ریفرنس ٹرائل کورٹ کو بھیجا تھا۔ جس کے بعد اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ کورٹ نے عمران خان کے خلاف ٹرائل کا باضابطہ آغاز کر دیا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال 22 نومبر کو پہلی سماعت کی۔
نواز شریف کو کئی مرتبہہتھکڑیاں لگا کر گرفتار کیا گیاپیشی پر لیجانے کے لیے انکو اسلام آباد سے کراچی تک جہاز کی سیٹ سے باندھ کر لے جایا گیا اٹک قلعے میں رکھا گیا ان کے سیل میں سانپ چھوڑے گئے انکو ملک بدر کیا گیا، آصف علی زدراری کو تو کئی مرتبہ گرفتار کیا گیا انکا بری طرح میڈیا ٹرائل کیا گیا
عمران خان چونکہ ان دنوں زخمی تھے اس لیے ہر پیشی پر ان کی جانب سے حاضری سے استثنی کی درخواست دائر ہوتی رہی اور عدالت نے اسے منظور بھی کیا۔ 31 جنوری 2023 کو عدالت نے فیصلہ کیا کہ اس کیس میں عمران خان پر فرد جرم 7 فروری کو عائد کی جائے گی۔ اس سلسلے میں عدالت نے عمران خان کو طب کیا لیکن حسب سابق وہ عدالت میں حاضر نہیں ہوئے۔عدالت نے ان کی حاضری سے استثنی کی درخواست قبول کرتے ہوئے انھیں 21 فروری کو دوبارہ طلب کیا لیکن ایک مرتبہ پھر غیر حاضری کی وجہ سے فرد جرم عائد نہ ہوسکی۔ 28 فروری کو عمران خان کو ممنوعہ فنڈنگ کیس میں جوڈیشل کمپلیکس کی بینکنگ کورٹ، دہشت گردی کے مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی عدالت، توشہ خانہ ریفرنس میں ایف 8 کچہری (مقامی عدالت)اور اسی عدالت میں اقدام قتل کے مقدمے میں پیش ہونا تھا۔تاہم عمران خان بینکنگ کورٹ اور انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ چلے گئے جہاں انھوں نے اقدام قتل کے مقدمے میں عبوری ضمانت حاصل کی اور لاہور واپس روانہ ہوگئے۔ عمران خان نے سکیورٹی وجوہات کو بنیاد بناتے ہوئے ایف ایٹ کچہری میں پیش ہونے سے انکار کر دیا۔ جس کے بعد عدالت نے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے انھیں گرفتار کرکے 7 مارچ کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ 5 مارچ کو اسلام آباد پولیس کی ٹیم زمان پارک پہنچی جہاں ان کی تحریک انصاف کے کارکنان کے ساتھ مڈبھیڑ بھی ہوئی تاہم شبلی فراز نے وارنٹ وصول کرتے ہوئے پولیس کو لکھ کر دیا کہ عمران خان اس وقت دستیاب نہیں ہیں۔
گذشتہ کئی ہفتوں سے عدالتوں اور اس کے باہر لاھور کی سڑکوں پر یہ دھماچوکڑی جاری ہے اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے وہ تووقت بتا دے گا مگر سوال یہ ہے کہ کیا گذشتہ پچھتر سالوں میں فوج،پولیس اور دیگر ریاستی اداروں نے کسی اور شہری کے ایسے ناز و نخرے اٹھائیں ہیں جتنے وہ عمران خان کے اٹھا رہے ہیں کیا عمران خان ذوالفقار علی بھٹو، خان عبدالولی خان، اکبر بگٹی، عطااللہ مینگل ، خیر بخش مری، غوث بخش بزنجو، آصف زرداری، بینظیر بھٹو ، نواز شریف سے بڑے آدمی ہیں کہ ملک کا کوئی قانون ان پر لاگو نہیں ؟اس ملک میں تو ایسا بھی ہوا ہے کہ بیک وقت دادا بیٹا اور نواسہ یعنی باچا خان ولی خان اور اسفندیار ولی خان کو گرفتار کیا گیا اور انکو ایک دوسرے سے جدا ملک کے مختلف جیلوں میں سالہا سال تک رکھا گیا مگر کیا انھوں نے ریاستی اقداام کے خلاف ایسا جارہانہ رویہ اپنایا جو آج عمران خان نے اپنایا ہوا ہے
سات مارچ کو ایڈیشنل سیشن جج جناب ظفر اقبال نے عدالت میں پیشی پر حاضر نہ ہونے کی بنا پر عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جس کو پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم نے اسلام آبادہائیکورٹ میں چیلنج کیا عدالت نے عمران خان کو ایک مرتبہ پھر ریلیف دیتے ہوئے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری اس شرط پر معطل کی کہ وہ تیرہ مارچ کو ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں پیشی کو یقینی بنائے بصورت دیگر انکی ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کی معطلی منسوخ تصور ہوگی اور انکو گرفتار کردیا جائیگاتیرہ مارچ کو عمران خان عدالت میں پیش ہونے کی بجائے لاہور میں ریلی کی قیادت کرنے نکل پڑے یہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی جانب سے عدالتی حکم کا تمسخر اڑانے کے مترادف تھاان حالات میں جب عمران خان کسی بھی عدالتی حکم کو خاطر میں لانے کے روادار نہیں تو عدالت کے پاس عمران خان کو گرفتار کروا کر عدالت میں پیش کروانے کے سوا کیا چارہ رہ گیا تھاپیر کو ڈی آئی جی اسلام آباد عمران خان کی گرفتاری کے لیئے زمان پارک پہنچی تو پی ٹی آئی کے جھتہ برداروں نے انکا راستہ روکا پولیس پر حملہ کیا گاڑیوں کو آگ لگا دی اور پولیس اھلکاروں پر پٹرول بم پھینکے جن سے ڈی آئی جی اسلام آباد سمیت متعدد پولیس اہلکار بری طرح زخمی ہوئے منگل کو پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم ایک مرتبہ پھر ریلیف لینے کے لیئے اسلام آباد اور لاہور ھائیکورٹ پہنچ گئی لاہورہائیکورٹ نے انکو جزوی ریلیف دیتے ہوئے پولیس کو 16 مارچ دس بجے تک آپریشن ملتوی کرنے کا حکم دے دیا جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے انکو جج ظفر اقبال کی ہی ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیاکیونکہ ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری انہی کی عدالت نے جاری کیے تھے بدھ 15 مارچ کو پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم ایک مرتبہ پھر ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت میں ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کی معطلی کی درخواست لیکر پہنچ گئی آج 16 مارچ کو یہ تحریر لکھتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے عمران خان کی ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کی معطلی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان کو 18 مارچ کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کر دیاجبکہ لاہور ہائیکورٹ نے آپریشن کی معطلی میں مزید ایک دن کی توسیع دے دی یعنی 17 مارچ صبح دس بجے تک عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیئے آپریشن معطل ہوگا
توشہ خانہ کیس پر فوجداری کارروائی کا آغاز نومبر 2022 میں ہوا تھا، کارروائی کے لیے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر نے ریفرنس ٹرائل کورٹ کو بھیجا تھا، جس کے بعد اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ کورٹ نے عمران خان کے خلاف ٹرائل کا باضابطہ آغاز کر دیا
گذشتہ کئی ہفتوں سے عدالتوں اور اس کے باہر لاھور کی سڑکوں پر یہ دھماچوکڑی جاری ہے اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے وہ تووقت بتا دے گا مگر سوال یہ ہے کہ کیا گذشتہ پچھتر سالوں میں فوج،پولیس اور دیگر ریاستی اداروں نے کسی اور شہری کے ایسے ناز و نخرے اٹھائیں ہیں جتنے وہ عمران خان کے اٹھا رہے ہیں کیا عمران خان ذوالفقار علی بھٹو، خان عبدالولی خان، اکبر بگٹی، عطااللہ مینگل ، خیر بخش مری، غوث بخش بزنجو، آصف زرداری، بینظیر بھٹو ، نواز شریف سے بڑے آدمی ہیں کہ ملک کا کوئی قانون ان پر لاگو نہیں ؟اس ملک میں تو ایسا بھی ہوا ہے کہ بیک وقت دادا بیٹا اور نواسہ یعنی باچا خان ولی خان اور اسفندیار ولی خان کو گرفتار کیا گیا اور انکو ایک دوسرے سے جدا ملک کے مختلف جیلوں میں سالہا سال تک رکھا گیا مگر کیا انھوں نے ریاستی اقدام کے خلاف ایسا جارہانہ رویہ اپنایا جو آج عمران خان نے اپنایا ہوا ہے
اس کے برعکس عدالت عمران خان کی پیشی کے لیئے منتیں کررہی ہیں،ضمانت پہ ضمانت دی جارہی ہے،وارنٹ پہ وارنٹ معطل ہو رہے ہیں مگر کسی میں جرات نہیں کہ خان کو عدالت میں پیش کر سکیں الٹا اسی دن جس دن اسکو عدالت میں پیش ہونا تھا ریلی نکال کر عدالت و ریاست کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ مارا ہے جتنا بے توقیر پاکستان کی عدالتوں اور اداروں کو عمران خان نے کیا ہے اسکا عشر وعشیر بھی کوئی اور کرتا تو اسکو ریاست و عدالت نے ملکر بیوی بچوں سمیت ذلیل و رسوا کرکے رکھ دینا تھا انھوں نے ماضی قریب میں ایسا کیا بھی ذوالفقار علی بھٹو جیسے دبنگ وزیر اعظم کو گرفتار کر کے جھوٹا کیس چلایا وہ ہر پیشی پر بڑی شان سے سوٹ پہن کر عدالت کے سامنے عزت وتکریم کیساتھ پیش ہوتا رہا آخری دم تک اپنا مقدمہ انہی عدالتوں میں لڑتا رہا جن کا انکو سو فیصد یقین تھا کہ وہ انکے ساتھ کسی قسم کی رعایت کی روادار نہیں بلاخر ان کو اس جھوٹے مقدمے میں پھانسی کی سزا سنائی گئی اور وہ پھانسی چھڑ بھی گئے انکی نماز جنازہ میں انکے خاندان کے افراد کو اجازت تک نہیں دی گئی امام مسجد سمیت دس پندرہ لوگوں نے انکی نماز جنازہ پڑھی اور منہ اندھیرے ان کو سپرد خاک کر دیاگیانواز شریف کو کئی مرتبہہتھکڑیاں لگا کر گرفتار کیا گیاپیشی پر لیجانے کے لیے انکو اسلام آباد سے کراچی تک جہاز کی سیٹ سے باندھ کر لے جایا گیا اٹک قلعے میں رکھا گیا ان کے سیل میں سانپ چھوڑے گئے انکو ملک بدر کیا گیادس سالہ جلاوطنی کے بعد آکر پھر وزیر اعظم بنے تو ایک مرتبہ پھر ایک بڑی سازش کے تحت انکو نام نہاد پانامہ کیس میں پھنسایا گیا لمبی چوڑی جے آئی ٹی بنی کھودا پہاڑ مگر نکلا چوہا بھی نہیں تو پانامہ سے اقامہ نکال کر بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کی پاداش میں بیک بین و دو گوش وزیراعظم ہاؤس سے نکال باہر کیا صرف یہ نہیں بلکہ پارٹی کی صدارت بھی چھین لی گئی بیمار بیوی کی بیمار پرسی کے لیئے لندن گیا تو پیچھے گرفتاری کا نوٹس بھیج دیا گیا وہ بیمار بیوی کو بستر مرگ پر چھوڑ کر بیٹی سمیت گرفتاری دینے پاکستان پہنچ گیااور جیل گیا پھر ایک اور سازش کے تحت ان کو ایک مرتبہ پھر ملک بدر ہونے پر مجبور کیا گیا مرد حر جناب آصف علی زدراری کو تو کئی مرتبہ گرفتار کیا گیا انکا بری طرح میڈیا ٹرائل کیا گیا روز سر شام رنگ برنگے اینکر پرسز آبپارہ کے کوٹھے پر مجرا سجا کر آصف علی زرداری کو ملک دشمن اور چور ڈاکو ثابت کرنے بیٹھ جاتے تھے انکو مسٹر ٹن پرسنٹ کے خطابات سے نوازا گیا، عدالتوں میں رگیدھا گیا،دوران اسیری ان پر بری طرح تشدد بھی کیا گیا اسی طرح بینظیر بھٹو کو بھی کئی مرتبہ گرفتار کیا گیا ایک پیشی کراچی میں تو اگلے ہی دن دوسری پیشی کے لیے لاہور جانے پر مجبور کیا جاتا تھاشوہر کئی سالوں تک پابند سلاسل ،بچے در بہ در ہوئے اور خود جلاوطنی کی زندگی بھی گزارنا پڑی۔
عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں پیشی اور فرد جرم کا معاملہ تقریبا دو ماہ سے التوا کا شکار ہے، اس دوران عدالت نے کئی بار عمران خان کی طبی بنیادوں پر حاضری سے استثنی کی درخواست منظور کی
مشرف دور میں یوسف رضا گیلانی تین سال جیل میں رہے ،افتخار چوہدری نے ان کو وزارت عظمی سے برطرف کیا تو اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی سے گھر بیٹھ گئے بے گناہ جاوید ھاشمی کو اسمبلی سے اٹھا کر جیل بھیج دیا گیا دوران اسیری انکو فالج ہوگیا صوبہ پختونخواہ میں پرویز خٹک نے عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین(تمغہ جرات)قتل کا جھوٹا الزام لگا کر پہلے مسلح بلوایوں کو ان پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا جہاں وہ بڑی مشکل سے اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوئے پھر اس جھوٹے مقدمے میں مقتول کے والد کی طرف سے خود مدعی بن کر میاں صاحب کے خلاف جھوٹی اور من گھڑت ایف آئی آر کاٹی گئی رات تین بجے انکو گھر سے گرفتار کروایاتنام رات انکو حوالات میں بند رکھا اور اگلی صبح انکو مجرموں کی طرح ھتکڑیاں پہنا کر تھانے سے کچہری لایا گیا اس کے علاوہ بشیر بلور ھارون بلور اور میاں افتخار کے اکلوتے بیٹے سمیت اے این پی کے ھزاروں کارکنوں کو شھید کیا گیا اور ابھی حال ہی میں شھباز شریف ، مریم نواز،سابق وزیر اعظم شاھد خاقان عباسی،راناثنااللہ ، خواجہ سعد رفیق،حنیف عباسی،خواجہ آصف اور علی وزیر سمیت بے شمار سیاسی کارکنوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا گیا کیا ان میں سے کسی نے بھی گرفتاری سے بچنے کے لئیے اسطرح کے اچھے ھتکنڈے استعمال کیئے؟ کیا ان میں سے کسی نے بھی عدالتی حکم کا ایسا تمسخر اڑیا؟ کیا ان میں سے کسی نے بھی گرفتاری سے بچنے کے لیئے مسلح جھتے آگے کیئے؟ پولیس کو تشدد کا نشانہ بنایا ؟ قومی املاک کو نقصان پہنچایا؟آج عمران خان قانون اور آئین کی دھجیاں اڑا رہا ہے مگر اسکو پوچھنے والا کوئی نہیں آخر یہ ساری رعایتیں صرف عمران خان ہی کے لیئے کیوں ہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ انکو ھماری ایسٹیبلشمنٹ سے بھی ذیادہ طاقتور کسی اور قوت کی پشت پناھی حاصل ہے اس ضمن میں عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کے کل کے بیان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا