یہ جو نامعلوم ہیں ہمیں سب معلوم ہیں

یہ جو نامعلوم ہیں ہمیں سب معلوم ہیں

 تحریر یوسف انور

4مارچ 2022 کو جب کوچہ رسالدار عقب قصہ خوانی بازار پشاور کے جامع مسجد میں جمعہ کی نماز میں خود کش بمبار نے خود کو اڑا دیا اور ڈیڑھ سو سے زیادہ نمازی شہید ہوئے تو اخونذادہ مظفر علی نے بنیادی سوالات کے ساتھ حکومت سے جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواست کی، بارہا  انہوں نے خطوط لکھے اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے رہے آج دن تک ان کی پوسٹیں سوشل میڈیا پر آتی ہیں لیکن حکومت اورا سٹبلشمنٹ نے جوڈیشل کمیشن نہیں بننے دیایہاں تک کہ 30جنوری2023 کو بروز پولیس فورس کے ہیڈ کوارٹر میں خود کش دھماکہ ہوا جس میں سو سے زیادہ نمازی شہید ہوئے اخونذادہ مظفر علی نے جو بنیادی سوالات کئے ان میں درج ذیل شامل ہیںنمبر ایک ،خودکش کون تھا اس کا شجرہ نسب ڈومیسائل کہاں کا ہے نمبر دو،تربیت کس طرح ہوئی کون اساتذہ ہیں،نمبر تین ،ٹریننگ سینٹرز کہاں ہیں۔نمبر چار،سہولت کاروں میں کون کون شامل ہیں۔نمبر پانچ لاجسٹک سپورٹس میں کون ملوث تھے ۔نمبر چھ ،خودکش بمبار کی شناخت سی سی ٹی وی کیمروں سے باآسانی دستیاب ہے عمر کے لحاظ سے بیس سال زیادہ ہیں۔نمبر سات ،ظاہر ہے کہ خودکش بمبار کو علاقے سے بخوبی واقف تھا اور وہ اکیلا نہیں تھا سہولت کاروں کے ساتھ ساتھ داخل ہوا،اخونذادہ صاحب آج تک لواحقین کے لیے انصاف کے منتظر ہیں اب پولیس فورس پر حملے کی نوعیت اس دھماکے سے مماثلت رکھتی ہے لیکن اس میں مسجد کی عمارت منہدم ہوگئی تھی لہذا یہ ایک خودکش بمبار کا کام نہیں آئی جی پختونخوا نے موٹر سائیکل سوار کی سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کی ہے لیکن اس سے شکوک وشبہات پیدا ہوئے ہیںامیر متقی افغانستان طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ یہ دھماکہ 12پونڈ کا نہیں بلکہ 80پونڈسے زائد کا ہے ہم مظلوموں کو کیا معلوم کہ کتنے وزن کے بارود سے عمارت گر جاتی ہے امیر متقی افغانستان کے ترجمان کا بیان قابل توجہ ہے ظاہر ہے کہ افغان طالبان تیکنیکی پہلوں سے بہتر واقفیت رکھتے ہیں اور ان کو تربیتی کیمپ اور ٹریننگ سینٹرز کا بھی پتہ ہے لیکن ساتھ ہی ترجمان نے کہا ہے کہ اپنے ملک یعنی پاکستان میں دہشت گردوں کو تلاش کرو ساتھ ہی انہوں نے کہا ہے کہ افغانستان کے دیگر قریبی ممالک میں خودکش حملے کیوں نہیں ہو رہیںا س تناظر میں دیکھا جائے تو عوام کا ردعمل صحیح ہے "یہ جو نامعلوم ہیںہمیں سب معلوم ہیں" یہ عوام کا نعرہ ہے کسی ایک جماعت یا گروہ کا نہیں فطری ردعمل ہے اس طویل تاریک راہوں میں جہاں ہمارے سیاسی رہنما معصوم عوام پولیس اہلکار شہید ہوئے اے این پی کے رہنماؤں کی فہرست سب سے زیادہ ہے مخلصانہ گذارش ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے تحقیقات سائنسی فارنزک کی روشنی میں ہونی چاہئیں اور مستحکم اقدامات کئے جانے چاہئیںنہ کہ نام و نہاد "مذاکرات" سے معاملات کو خاموش کیا جائے۔