مرغوب توشہ۔۔۔ کھانا تقریباََ بند

مرغوب توشہ۔۔۔ کھانا تقریباََ بند

جالاوان مومند
،عمران کا انجام قریب ہے؟یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخ میں ایسے بہت سے شواہد ملتے ہیں جن میں غیر مقبول حکمرانوں یا حکومتوں کے بعض اقدامات مستقبل کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئے ہیں اور موجودہ دور میں ان کی مثال وزیر  اعظم  شہباز شریف کی جانب سے اشرافیہ کی مرغوب ڈش توشہ ''کھانا'' سے متعلق اقدامات ہیں،یہ بھی ایک حقیقت ھے کہ وزیر اعلی پنجاب کی حیثیت سے جو تحائف انہوں نے وصول کئے تھے ان کو نیلام کراکے حاصل ہونے والی رقم قومی خزانے میں جمع کرائی گئی -گزشتہ روز اتحادی حکومت نے توشہ خانہ کے حوالے سے کچھ معلومات پبلک کی ہیں جن کا دورانیہ 2002 سے 2023  تک ہے جس کے مطابق اس  عرصہ کے دوران اشرافیہ میں شامل تمام طبقات نے اہل خانہ اور دوستوں سمیت اس سے استفادہ کیا جن میں جنرل(ر)پرویز مشرف اورسابق وزیر اعظم میر ظفراللہ جمالی سے لے کر جنرل(ر)قمر جاوید باجوہ اور صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی تک سب شامل ہیں اس ضمن میں یہ بیان کرنا بھی ضروری ہوگا کہ آصف علی زرداری اور نواز شریف کو قانون میں نرمی کرکے توشہ ''کھانا'' سے محظوظ ہونے کا موقع فراہم کیا گیا جس پر اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور محولہ بالا 2شخصیات کے خلاف ریفرنس بھی بنا-فوجی اور سیاسی شخصیات کے علاوہ بعض ججز اور صحافی بھی توشہ ''کھانا'' کھانے والوں میں شامل ہیں- موجودہ وزیر اعظم نے توشہ خانہ سے متعلق پہلی مثال تب قائم کی جب انہوں نے ملنے والے تحائف کم قیمت پر خرید کر پاس رکھنے کے بجائے ڈسپلے کے لئے لگوائے اور پھر توشہ خانہ کی مکمل نہ سہی مگر گزشتہ 21 سال کی معلومات پبلک کردیں اور اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ توشہ کھانا کی روایت بدلنے کے لئے توشہ خانہ پالیسی 2023 کی منظوری بھی دے دی جس کے تحت اب سیاستدان،جنرلز،ججز سمیت تمام اشرافیہ 300 ڈالر تک کے تحائف ہی متعلقہ قوانین کے تحت پاس رکھ سکیں گے جبکہ اس سے زیادہ مالیت کے تحائف توشہ خانہ میں جمع کرانے کے پابند ہونگے-اگر چہ پی ڈی ایم اور اتحادیوں کی حکومت تاریخی  مہنگائی سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے ماضی کی غیر مقبول حکومتوں سے آگے نظر آتی ہے مگر توشہ خانہ سے متعلق اس کے اقدامات لائق ستائش ہیں اور ایسے حالات میں جب شہباز شریف کی جانب سے یہ اقدام اٹھایا گیا ہے تو عین اسی وقت نوازشریف کے معتمد ساتھی کے طور پر شہرت رکھنے والے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے توشہ خانہ سے متعلق اپنے دفاع کے لئے جو موقف سامنے آیا ھے وہ میرا تحفہ میری مرضی والے نظریئے کے قریب تر ہے اسی کو محسوس کرتے ہوئے وزیر اعظم کے صاحبزادے سلیمان شہباز نے ری ایمیجنگ توشہ خانہ گفٹس کا ٹوئٹ بھی جڑ دیا ہے جس پر بھی ایک بحث چھڑ گئی ہے-حقیقت یہ ہے کہ توشہ خانہ سے متعلق رائے زنی کرنے والے یہ حقیقت فراموش کر دیتے ہیں کہ 2002 سے تاحال توشہ خانہ میں جو کچھ کیا گیا وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق ہی ہے کیونکہ توشہ خانہ سے مستفید ہونے والی اشرافیہ کی سالانہ مراعات یعنی ساڑھے سترہ ارب ڈالر  تو بہر حال تادم تحریر جاری وساری ہیں جو توشہ خانہ سے کہیں زیادہ بڑھ کر عوام کے ساتھ سنگین مذاق ہے امید ہے کہ عوام سے متعلق سخت فیصلے کرنے والی حکومت عوام کے مفاد میں اشرافیہ کی مراعات سے متعلق بھی زمینی حقائق کے تحت فیصلے کرنے کی توفیق پائے گی اور یہی اقدام ملکی ترقی میں اہم موڑ ثابت ہوسکتا ہے اس سلسلے میں جیسا کہ ان ہی کالمز میں پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ پہل عوامی نمائندوں کو کرنا ہوگی اس ضمن میں وہ ارکان اسمبلی جن کا تمام تر انحصار تنخواہ پر ہے کے سوا باقی سب اپنی ہر قسم کی مراعات سے کم از کم تب تک دستبرداری کا اعلان کریں جب تک معاشی حالت بحال اور عوام کی خوشحالی کی راہ ہموار نہیں ہو جاتی ورنہ اگر یہ اصول ہمیشہ کے لئے اختیار کر لیا جائے تو شاید عوامی نمائندگی کے دعوئوں کو تقویت مل سکتی ہے دوسری جانب تحریک انصاف کے لئے ہر آنے والا دن نئی مشکلات اور مصائب ساتھ لا رہا ہے ان میں پی ٹی آئی کارکن علی بلال عرف ظل شاہ کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد اب 2 عدالتوں کی جانب سے عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کا اجرا اور اس کے بعد پولیس کی ہیلی کاپٹر میں اسلام آباد سے لاہور آمد ہے،واضح رہے کہ توشہ خانہ سے متعلق الیکشن کمیشن کی جانب سے فوجداری کارروائی کے لئے مقامی عدالت  میں دائر ریفرنس فرد جرم عائد کرنے کے مرحلے پر ہے اور عمران خان کی مسلسل عدم پیشی پرمقامی عدالت نے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کئے جس کے خلاف تحریک انصاف کے چیئرمین نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا اور عدالت عالیہ نے 13 مارچ تک وارنٹ معطل کرتے ہوئے عمران خان کو متعلقہ عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا مگر عمران خان نے حسب روایت 13 مارچ کو پیشی کے بجائے لاہور میں ریلی کی قیادت کو فوقیت دی جس کے بعد ان کے خلاف وارنٹ بحال ہوگئے ہیں اور خاتون جج کو دھمکانے کے کیس میں بھی ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہو چکے ہیں ایسے میں یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ تحریک انصاف کے چیئرمین کی گرفتاری پر حکومت میں 2  آرا ہیں کچھ لوگ فوری گرفتاری کے حق میں ہیں جبکہ کچھ کا موقف اس کے برعکس ہے جس کی وجہ عدلیہ میں چند ججز کا پی ٹی آئی کے حق میں جھکائو ہے اور اس موقف کے حامی ستمبر تک انتظار کا مشورہ دیتے نظر آرہے ہیں جبکہ 13 مارچ کو ریلی کے موقع پر عمران خان نے آئندہ اتوار کو مینار پاکستان پر جلسے کا اعلان بھی کیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اتوار سے قبل ان کی گرفتاری ہوتی ہے یا انہیں سیاسی سزائے موت سے قبل اپنے چاہنے والوں سے آخری خطاب کی اجازت دی جائے گی(یہ صورتحال بھی اس حوالے سے عدلیہ کے کسی بھی ممکنہ حکم سے مشروط ہے)اب آگے آپ خود ملاحظہ فرمائیں کیونکہ اتوار ابھی دور اور ستمبر مزید دور ہے-