
زمان پارک میں ٹکٹ کے حصول کیلئے
شمیم شاہد
مرحوم باچاخان سمیت بہت سے اکابرین کے اقوال پر ایک بار پھر مہر تصدیق ثبت ہو گیا کہ پشتون من الحیث القوم اجتماعیت سے نا واقف ہیں پچھلے کئی برسوں سے لاہور کے زمان پارک میں آئین اور قانون سے باغی نہیں بلکہ آئین قانون عدلیہ اور انتظامیہ کا مذاق اڑانے والوں کا جس طرح دفاع کیا جا رہا ہیں اس کی مثال مہذب معاشرے یا ریاستوں کی تاریخ میں دیکھنے کو نہیں ملتی ۔ نہ صرف 1947 میں قیام پاکستان سے پہلے بلکہ بعد میں بھی بہت سے سیاسی رہنماوں کو اقتدار اور عہدوں سے بالکل غیر آئینی اور غیر قانونی طریقوں سی ہٹایا گیا تھا چند سال قبل ایک عدالتی فرمان کے ذریعے پہلے سید یوسف رضا گیلانی اور بعد میں تیسری بار منتخب میاں محمد نواز شریف کو جب وزارت عظمی کے عہدوں سے ہٹایا گیا انکے بھی عدلیہ عظمی کے ان فیصلوں پر تحفظات تھے مگر نہ تو انہوں عدالتوں کے نوٹسز لینے سے انکار کیا اور نہ عدالتوں کے سامنے پیش ہونے سے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ عمران خان کسی سیاسی جدو جہد یا محنت کی بجائے جنرل قمر جاوید باجوہ۔ جنرل فیض ۔ جنرل ظہیر الاسلام۔ جنرل شجاع پاشا۔ جسٹس افتخار چوھدری اور جسٹس ثاقب نثار کی بیساکھیوں کے سہارے اقتدار میں آیا تھا اسی لیے وہ سیاسی طور طریقوں سے مکمل طور پر ناواقف ہے ۔ اب بھی افواج پاکستان میں انہیں باجوہ اور فیض اور عدلیہ میں جسٹس عمر عطا بندیاں اینڈ ہمنوا کی سرپرستی حاصل ہے اسی وجہ سے پچھلے نومبر سے اسلام آباد کی عدالتوں اور زمان پارک کے درمیان ایک تماشا لگا ہوا ہے ۔ وارنٹ گرفتاری یا عدالتوں میں حاضری کے نوٹس آنے اور لیجانے پر قومی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اب تو بات ڈھکی چھپی ہی نہ رہی کیونکہ کسی اور نے نہیں کی ہے بلکہ پاکستان تحریک انصاف کے سرکردہ خاتون رہنما ڈاکٹر یاسمین ارشد نے کی ہے کہ خان صاحب بھی ضد پر ہیں اور وہ بھی دوسرے فریق کی طرح عمران خان بھی لاشیں گرانے کے چکر میں ہے صدر عارف علوی کے ساتھ فون پر گفتگو میں ڈاکٹر یاسمین راشد نے صدر کو کہا کہ خان کو کہہ دیں کہ اب بس کرو اور ہار مان لو۔ عمران خان کے سب سے بڑے وکیل اعتزاز حسن کے بہنوں نے بھی عمران خان اور عمران خان کی بہنوں کو اس تماشے کو ختم کرنے کی اپیل کی ہے ۔ پنجاب بھر سے عمران خان کی حفاظت کے لئے دو سو بندے زمان پارک میں جمع نہیں ہوئے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا سے ہزاروں لوگ وہاں موجود ہیں ان لوگوں کو لانے اور جمع کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ آئندہ کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر حصہ لینے والے خواہشمند ہیں مگر ان خواہشمند حضرات میں سوات دیر بونیر اور دیگر علاقوں بالخصوص قبائلی اضلاع سے وہ انتہا پسند بھی شامل ہیں جو کبھی طالبان عسکریت پسندوں کے صفوں میں شامل تھے اب ان عسکریت پسندوں کو سکور سیٹل کرنے کے مواقع بھی کوئی اور نہیں بلکہ عمران خان ہی فراھم کر رہا ہے ۔ خیبر پختونخوا کے جنوبی شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی سلیم قریشی نے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا ہے کہ " اگر عدالتی احکامات کو پاؤں تلے روندنا اور ریاستی ادارون پر حملہ آور ہونا زندہ قوم " ہونا ہے تو پھر دہشت گردی اور ملک سے غداری کس چیز کا نام ہے ؟" سلیم قریشی صاحب کا یہ مختصر پیغام ریاست پاکستان کے علمبرداروں کے منہ پر ایک طمانچے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ بہرحال بات ہو رہی تھی پشتونوں کی تو یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساڑھے نو سالہ دور میں عمران خان نے پشتونوں اور خیبر پختونخوا کو مکمل طور پر نظر انداز کیا تھا اگر اس نے اپنے چمچوں کو وزارتیں دی تھیں تو وہ بھی لوٹ کھسوٹ کے لئے ۔ باقی تو چھوڑئیے ان وزراء نے تو صحافیوں سے بھی اپنا حصہ وصول کیا ہے ۔ خیبر پختونخوا کے ایک ضلعی ہیڈ کوارٹر کے پریس کلب کو صوبائی وزیر اعلی نے لگ بھگ ساٹھ لاکھ روپے کے گرانٹ کی منظوری دی تھی ۔ پریس کلب کے عہدیداروں کو ساٹھ لاکھ روپے کا چیک تب ملا جب وزیر با تدبیر کو مبلغ پانچ لاکھ روپے نقدی کی صورت میں ملے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے نوجوان پختونوں کے ساتھ زمان پارک میں چوکیداری کے بعد کیا سلوک ہونے والا ہے ۔ ویسے لاھور والے بولتے اور گرجتے کم ہیں مگر پس پردہ کام بہت کرتے ہیں۔ تاہم یہاں پر پھر وہی بات سامنے آتی ہے کہ شاعر کے بقول پشتونوں کے لشکروں کو ہمیشہ سازشیوں نے اپنے اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا ہے اور عمران خان اس سازش کی پیداواروں میں شامل ہے جس کے تحت حمید گل سے لیکر شجاع پاشا۔ ظہیر الاسلام۔ فیض حمید اور دیگر نے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی ترویج و ترقی کی ہے