صوابی گدون میں پشتو ادب کی روایت 

صوابی گدون میں پشتو ادب کی روایت 


تحریرامجدعلی +عیسی خان

صوابی گدون میں پشتو ادب کی روایت اگر چہ وسائل اور سہولیات کے لحاظ سے گدون ایک پسماندہ علاقہ ہے لیکن علم و ادب سیاست و شجاعت کے میدانوں میں اس بستی نے ایسی متعدد قابلِ رشک ہستیاں پیدا کیں جن کا احاطہ چند صفحات میں کرنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ جیسا کہ یہ روایت چلی آرہی ہے کہ پشتونوں کا آبائی مسکن افغانستان قندھار میں موجود غوڑہ مرغئی نامی جگہ ہے۔ نیز یہ جدون قوم کا بھی اولین مسکن تھا۔ جب مرزا الغ بیگ کے ہاتھوں یوسفزئیوں کا قتل عام ہوا اور یوسفزئی بحالت مجبوری ہجرت کرکے وادئی پشاور چلے آئے تو یوسفزئیوں کی ہجرت کے متصل بعد قبیلہ گدون بھی لگ بھگ وادی پشاور وارد ہوا اور قبیلہ یوسفزئی سے جا ملا شیخ ملی کی تقسیم اراضی میں بہ اتفاقِ مورخین قبیلہ گدون کو موجودہ علاقہ گدون ملا۔ قبیلہ گدون کی آمد سے قبل اس علاقے کو کوہستان، علاقہ غیر، کلارجگ اور علاقہ مہابن جیسے کئی ناموں سے یاد کیا جاتا تھا۔ گزشتہ سطور میں ذکر کیا گیا کہ علاقہ گدون میں گدون قوم کی آمد سولہویں صدی عیسوی میں ہوئی تاہم اس دور میں پشتو شاعری ضروربالضرو موجود تھی البتہ یہ الگ بات ہے کہ ہمیں پشتو شاعری کا تحریری سرمایہ بہت بعد میں ملتا ہے۔ اس سلسلے میں پروفیسر پریشان خٹک کی رائے قابلِ ذکر ہے جو انہوں نے پشتو شاعری کے آغاز کے بارے میں اپنی کتاب "پشتو شاعری کی تاریخ" میں بیان کیا ہے۔"پشتو شاعری کا آغاز کب ہوا ؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں ہزاروں سال پیچھے جانا پڑے گا، اس دور کی طرف جب قبائلی نظام میں بٹے ہوئے پشتون خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے تھے۔ تحریر کا کوئی ذریعہ نہ تھا اور پشتو زبان ایک بولی کی حیثیت سے زندہ تھی تاہم پشتو شاعری اس وقت بھی یقینا موجود تھی کیونکہ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ فلک بوس پہاڑوں، خوبصورت آبشاروں، شفاف جھیلوں اور شاداب وادیوں کے اس جنت نظیر خطے میں جہاں فطرت خود شاعری کرتی نظر آتی ہے وہاں کی باسیوں نے نغمے نہ الاپے ہوں یا گیت نہ گائے ہوں"پروفیسر پریشان خٹک کی اس رائے کا اطلاق علاقہ گدون جیسی جنت نظیر خطے اور طبع شاعرانہ و فطرت پسندانہ باسیوں پر کرنا بیجا نہ ہوگا۔ اس کے علاوہ تمام پشتون قبائل کی طرح قبیلہ گدون بھی طویل عرصے تک جنگ و جدل میں مصروف رہے اور بہت بعد میں تحریر کی طرف راغب ہوئے ہیں۔ قبائلی جنگ و جدل کے بعد یہاں کے لوگوں نے علمی و ادبی سرگرمیاں شروع کیے۔ اس ابتدائی پس منظر کے بعد گدون میں پشتو ادب کی تحریری سرمایہ کا دور آتا ہے۔ گدون میں پشتو ادبی اور شعری روایت آغاز سے اب تک کم و بیش  سال سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ اس کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ متقدمین، متوسطین اور متاخرین۔متقدمین سے مراد وہ شعرا ہیں جن کے احوال و آثار کے بارے میں کسی حد تک معلومات موجود ہیں۔ یہ گدون میں پشتو ادب کی ابتدائی تحریری سرمایہ کا دور ہے جس کا آغاز بیاض جدون کی شکل میں بارھویں صدی ہجری سے ہوتا ہے۔ بارھویں صدی ہجری سے لے کر ھ یعنی یوم آزادی پاکستان تک کئی شعرا گزرے ہیں جن میں محمد بیاض جدون علاقہ گدون کے پہلے قدیم،عظیم اور صاحبِ دیوان پشتو شاعر تھے۔ بیاض جدون کا تعلق علاقہ گدون کے دیول نامی گاؤں سے تھا۔ پشتو ادب کے کلاسیکی دور کے عظیم اور صاحبِ دیوان شاعر علی خان آپ کے ہم عصر اور پیر بھائی تھے۔ دونوں چمکنی میاں عمر صاحب کے عقیدت مند اور مرید تھے۔ دیوان بیاض سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بیاض جدون سے پہلے بھی یہاں کئی شعرا گزرے ہونگے لیکن ان کی معلومات اور تحریری مواد نہ ہونے کی صورت میں تاحال ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔بیاض جدون کے بعد معلوم شعرا میں محمد جی لیونے کا تعلق بھی اسی دیول نامی گاؤں سے تھا۔ پشتو کے عظیم شاعر اور اعلی پایہ کے یہ عالم دین انیسویں صدی عیسوی میں گزرے ہیں۔ آپ پشتو عوامی ادب کی معروف و مقبول صنف "چاربیتہ" کے ماہر تھے۔ ملا عزیزاللہ انیسویں صدی عیسوی میں گزرے ہیں۔ آپ کا تعلق قدرہ یوسف خیل سے تھا۔ آپ کو گدون کے پہلے معلوم پشتو نثر نگار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ آپ کا قلمی نسخہ جس میں طب کے حوالے سے مختلف نسخات ہیں۔ ملا عزیزاللہ کے بھائی حمیداللہ معروف عالم دین اور مقبول شاعر تھے۔ آپ کو حمید بابا، حمید گدنے اور حمید ملا کے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ڈی ایس پی گل بلند خان کے دادا سرگند خان ایک ممتاز اور فی البدیہ شاعر تھے۔ سوکیا نامی ہندو شاعر علاقہ گدون پابینی نامی گاں میں گزرے ہیں۔ جو سوکیا ہندو کے نام سے مشہور ہے۔ سوکیا ہندو نے آج سے تقریبا سو سال پہلے ہجرت مدینہ کا واقعہ بیان کیا ہے۔ پابینی گاں کے باور اخون بھی ایک مشہور چاربیتی شاعر تھے۔ چاربیتہ کا یہ قادرالکلام شاعر زیدہ گاں کے سخی ارسلاخان کے ہم عصر اور قریبی دوست تھے۔ غلام اخون جس کا ذکر بعض کتابوں میں غلام خان کے نام سے بھی کیا گیا ہے۔ غلام اخون کا تعلق بھی پابینی نامی گاں سے تھا۔ پشتو کے یہ قدیم چاربیتی شاعر  میں پیدا ہوئے۔ آپ نے علاقہ گدون کے متعدد واقعات کو چاربیتہ میں قلم بند کیے ہیں۔ڈاکٹر ضیا اللہ جدون نے اپنی کتاب  تاریخ صوابی  میں اپنی دادی جان کی روایت سے علاقہ گدون کے بیسک نامی گاں کے متعلق ایک تاریخی واقعہ درج کیا ہے جس سے گدون کی ادبی روایت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ خدوخیل (مندڑ) کے فتح خان کا اکلوتا بیٹا اور جانشین مقرب خان کا اپنی قوم خدوخیل سے کسی بات پر ان بن ہوگئی، اسی چپقلش میں انہوں نے مقرب خان کے اکلوتے جواں سال بیٹے اکرم خان کو موت کیگھاٹ اتار دیا۔ مقرب خان جان بچا کر بیسک چلے آئیاور یہاں موجود اراکین جرگہ سے درخواست کی کہ بیسک کے باحمیت جدون ان کا ساتھ دیں تاکہ وہ اپنے بیٹے کا بدلہ لے سکے، لیکن آراکین جرگہ ایسا کرنے کے لیے تیار نہ تھے کیونکہ وہ خوامخوا پرائی جنگ اپنانا نہیں چاہتے تھے، ہاں البتہ انہوں مذکورہ خان کو یہ پیشکش ضرور کی کہ جب تک وہ چاہے، بیسک میں بے خطر ہوکر رہے۔ وقت گزرتا رہا اور خان بیسک میں شب و روز بسر کرتا رہا۔ ایک دن جب وہ بیسک موسی زئی کے ونڈ  ناساپی  میں ایک چٹان پر بیٹھا اپنے دوستوں سے گپ شپ میں مصروف تھا کہ دریں اثنا چند معمر عورتیں وہاں سے گزریں، انہوں نے خان کو ایسی حالت میں دیکھ کر بے ساختہ کہا: اول د ٹول مندڑ سردار ویاس د بیسک پہ گٹہ ناست ئے مسافرہ متقدمین کے بعد متوسطین کا دور شروع ہوتا ہے۔ اس دور کا آغاز انیسویں صدی کے بعد ہوجاتا ہے۔ جو پشتو ادب کا ابتدائی جدید دور کہلاتا ہے۔ متوسطین میں وہ شعرا شامل ہیں جن کے احوال و آثار کے متعلق کافی معلومات دستیاب ہیں۔ اس دور میں کئی شعرا و ادبا گزرے ہیں جن میں پشتو اکیڈمی پشاور کے بانی اور اولین ڈائرکٹر مولانا عبدالقادر کا نام نمایاں ہیں۔ مولانا عبدالقادر  جون  کو پابینی گدون میں ابو ذر مرحوم کے گھر پیدا ہوئے۔ ترجمہ نگاری، صحافت، خطوط نویسی اور تحقیق کے میدان میں پشتو زبان و ادب کے لئے آپ کے خدمات اظہر من الشمس ہے۔ ڈی ایس پی گل بلند خان کے والد سربلند خان جدون کو سرگند خان کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کا شمار گدون کے ممتاز شعرا میں ہوتا ہے۔ آپ کا آبائی مسکن ٹالی ساندوہ گدون ہے لیکن یہاں سے ہجرت کرکے مستقل رہائش جمال گڑھی مردان میں اختیار کی تھی۔ طاس شاہ بابا  کو گل سید کے گھر ساندوہ گدون میں پیدا ہوئے۔ طاس پشتو کے عظیم شاعر تھے۔ عزلیات اور رباعیات میں طبع آزمائی کرکے خوب نام کمایا۔  د عبرت خبرے  نامی کتاب میں قیامت، جنت اور جہنم کے احوال بڑے موثر انداز میں بیان کئے ہیں۔ عزیزاللہ سرحدی کا تعلق علاقہ گدون کے قدرہ نامی گاؤں سے ہیں۔ آپ پشتو کے عظیم شاعر تھے۔ مولانا شاہ جھان استاد کاتعلق بھی قدرہ گدون سے تھا۔ مولانا شاہ جھان استاد ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ پختونخواہ کے اولین نعت خوان اور مشہور شاعر کے ساتھ ساتھ آپ ایک جید عالم دین بھی تھے۔ آپ کی تقریبا سترہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ آپ کے چھوٹے بھائی مولانا محمد امین جان استاد بھی معروف شاعر اور عالم دین ہیں۔ سعداللہ جان کے گھر پیدا ہوئے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے ممبر بھی تھے۔ آپ کی مطبوعہ کتب کی تعداد چودہ ہیں۔ عجب خان شاکر کو کالا خان کے گھر گندف گدون میں پیدا ہوئے۔ آپ پشتو کے عظیم شاعر تھے۔ چاربیتہ، رباعی، اور غزل میں طبع آزمائی کرتے تھے۔ آپ کے تین مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ غلام نبی  کو تاج محمد کے گھر تکیل گدون میں پیدا ہوئے۔ آپ چاربیتہ اور رباعی کے معروف اور فی البدیہ شاعر تھے۔ حضرت علی چنئی گدون میں پیدا ہوئے۔ آپ نے علاقہ گدون کے کئی تاریخی واقعات کو چاربیتہ میں قلم بند کیے ہیں۔متوسطین کے بعد متاخرین کا دور آتا ہے، جو جدید شعرا و ادبا کا دور ہے۔ متاخرین میں وہ شعرا شامل ہیں جن کے احوال و آثار کے حوالے سے مکمل معلومات دستیاب ہیں۔ ان میں چند شعرا و ادبا کے علاوہ باقی تمام، شعرا و ادبا جسمانی طور پر اب بھی صفحہ ہستی پر موجود ہیں۔ پشتو ادب کا تیسرا اور آج تک آخری دور یا جدید دور میں جدید اصناف کے ساتھ ساتھ جدید موضوعات، رجحانات اور میلانات بھی شامل ہوئیں۔ جدید شعرا و ادبا میں سب سے پہلا نام بانی  گدون پشتو ادبی جرگہ  مرحوم شوکت علی سجاد کا ہے۔ مرحوم شوکت علی سجاد جدید ادب کے پیچ و خم سے بخوبی واقف تھے۔ آپ  کو محب الحق کے گھر تکیل گدون میں پیدا ہوئے۔ شعری ادب، افسانوی ادب، تجزیہ و تنقید، تاریخ و سیرت جیسے کئی موضوعات پر آپ کو مکمل دسترس حاصل تھی۔ آپ نے علاقہ گدون میں فروغ ادب کے لیے چند ادبا و شعرا سے مل کر  میں گدون پشتو ادبی جرگہ  کے نام سے ادبی تنظیم کی بنیاد رکھی جو ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے کافی متحرک تنظیم ہے اور اس کے زیر اہتمام تقریب رونمائی، مشاعرے اور ادبی و تنقیدی نشستیں منعقد کی جا چکی ہیں۔ اس کے علاوہ اس ادبی تنظیم نے  میں  د گدون گل افشانی  کے نام سے ایک کتاب شائع کیا جو دراصل گدون کے پشتو شعرا کے تذکرے پر مشتمل ہے، جس میں گدون کے اٹھاون پشتو شعرا کے مختصر تعارف اور نمونہ کلام موجود ہے۔  میں تنظیم کے سابق صدر محمد اشتیاق خاکسار اور جنرل سیکرٹری بابر جدون نے تنظیم کے بانی مرحوم شوکت علی سجاد کا شعری مجموعہ  د خوبانو انتخاب  کے نام سیشائع کیا۔ شوکت علی سجاد کے بعد حاجی شعیب، حیدر زمان جدون، سید خان جدون، احمد خان احمد، اشرف علی مومن، محمد اشرف خان اشرف، چنگیز خان گدون، فضل الرحمان فجی گل فجی، فیض گدون، گل محمدملنگ، ماسٹر محمد رحمان جدون، ڈی ایس پی گل بلند خان،محمد اشتیاق خاکسار، بابر جدون، علی زر خان علی، نیاز امین امین، جمشید وصال، یوسف سائل، گل ریحان ریحان، حاجی بہادر تکیل وال، گل رحمان نایاب، احسان اللہ یسیر، صابر علی جدون، خادم نبی، محمد نثار جدون، مشتاق نگار، سلیم زادہ سلیم، سلیم احساس، اسد گدون، اسرار عالم دائم، عابد خان عابد، احمد چنیوال، الیاس جدون، نور جمال شاہ جدون، رب نواز، ذاکر رحمان ذاکر، ناصر خان جدون، بشیر احمد بشیر، جاسم علی جاسم اور بعد کے ان گنت شعرا و ادبا جدید دور کے اس کاروان میں شامل ہوگئے۔ یہ دور مواد، اصناف اور موضوعات کے حوالے سے اتنا وسیع اور غنی ہے کہ اس کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔