
آخری حصہ
پاپولر بیانیے کی موت
وصال محمد خان
رابن رافیل کی عمران خان سے ملاقات اور عمران کی ''حقیقی آ زادی تحریک'' کو اگر مدنظر رکھ کر اس ملاقات کا جائزہ لیا جائے تو عرب سپرنگ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ خدا اس ملک پررحم کرے۔ مگر لگتا یہی ہے کہ عمران خان اقتدارکیلئے ملک، اس کے اداروں اور سسٹم کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔ فوج کے خلاف جو بیانیہ بنایا گیا اس سے اس وقت ہوا نکل گئی جب موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دینے کی بات کی گئی اوران سے ملاقاتوں کی خبریں سامنے آئیں۔ ایک دن ایک بڑے اور تجربہ کار صحافی کے ساتھ ملک کے ایک معروف ٹی وی چینل پر انٹرویو میں توسیع کی بات کی گئی جبکہ دوسرے دن اس بیان کو ''غلط انداز میں پیش کرنے'' کا بیان جاری کیا گیا۔ کمال ہے یا تو یہ مشہور ِزمانہ اینکر ہوش وحواس سے بیگانہ تھے یا پھرخان صاحب اسی حالت سے دوچار تھے۔ الغرض اقتدار سے رخصتی کے بعد خان صاحب نے جو بیانئے بنائے تھے ان کے کارکنوں اور پارٹی راہنماؤں نے جن کی فروغ و ترویج کیلئے دن رات ایک کر دیئے تھے ایک ایک کر کے یہ تمام بیانئے زمیں بوس ہو رہے ہیں۔ اب بس ایک ہی بے مقصد اور غیرضروری بیانیہ رہ گیا ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف کو آرمی چیف لگانے سے روکا جائے ورنہ وہ ''بھارت'' سے کسی جنرل کو لا کر آرمی چیف لگا دیں گے جو محب وطن نہیں ہو گا۔ حالانکہ اس ملک میں معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والے عام آدمی کو بھی معلوم ہے کہ آرمی چیف کون لگاتا ہے اور کیسے لگتا ہے۔ اس سے قبل نواز شریف پانچ جبکہ زرداری ایک آرمی چیف لگا چکے ہیں جو کہ تمام محب وطن بھی تھے اور اس دھرتی کے بیٹے بھی تھے۔ ان تمام آرمی چیفس کی زندگی میں ایسے کئی مواقع آئے جب انہوں نے اپنا سر ہتھیلی پہ رکھ کر دھرتی ماں کی حفاظت کی۔ پھر آرمی چیف کوئی بھی وزیراعظم گھر سے لا کر نہیں لگا سکتا ورنہ جب نواز شریف جنرل وحید کاکڑ یا آصف نواز مرحوم کی تقرری کر رہے تھے تو اس وقت ان کے داماد کیپٹن صفدر بھی حاضر سروس فوجی ملازم تھے۔ اگر وہ اپنے کسی رشتے دار کو آرمی چیف لگا سکتے تو اپنے داماد کو لگا دیتے۔ حتیٰ کہ جب انہوں نے جنرل مشرف کو برطرف کر کے آرمی چیف لگانے کی ٹھان لی تو اس وقت بھی ان کی نظرِ کرم اپنے کسی قریبی شخص پر نہیں پڑی بلکہ انہوں نے آئی ایس آئی چیف جنرل ضیاء الدین کو آرمی چیف لگایا۔ یہاں جو بھی وزیراعظم ہو انہیں اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کا معیار کیا ہے اور آرمی چیف کیسے لگایا جاتا ہے۔ اگر ان حقائق سے لاعلم ہیں تو ایک سابق وزیراعظم عمران خان ہیں جنہیں یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ شہباز شریف اور پی ڈی ایم کی حکومت کسی ایسے شخص کو آرمی چیف تعینات کر لیں گے جو محب وطن نہیں ہوں گے اور ان کی تعیناتی سے نواز شریف اور زرداری کی مبینہ کرپشن کے پیسے کو تحفظ حاصل ہو جائے گا حالانکہ یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ موجودہ آرمی چیف کو نواز شریف نے تعینات کیا۔ اور ان کی موجودگی میں عمران خان وزیراعظم منتخب ہوئے اور اپوزیشن یہ الزام لگاتی رہی کہ ان کی شکست کیلئے آر ٹی ایس سسٹم بٹھایا گیا جس میں فوج کا تعاون شامل حال رہا۔ خان صاحب کو آج کل کوئی نیا بیانیہ نہیں مل رہا تو انہوں نے آرمی چیف کی تعیناتی کو متنازعہ بنانے کی ٹھان لی۔ اب ہر ٹی وی ٹاک شو اور پریس ٹاک وغیرہ میں آرمی چیف کی تعیناتی موضوعِ بحث رہتی ہے۔ ہر ایرا غیرا نتھو خیرا آرمی چیف کی تعیناتی پر منہ سے جھاگ اڑاتا نظر آتا ہے۔ ان عقل کے اندھوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ اس سے فوج کے مورال پر برا اثر پڑے گا۔ واضح الفاظ میں فوج کمزور ہو گی اور جن ممالک کی فوج کمزور ہو جاتی ہے ان کا حال عراق، شام، لبنان اور لیبے اسے مختلف نہیں ہوتا۔ مگر عمران خان اور ان کے حواریوں کو شائد دنیا میں کوئی اور مسئلہ نظر ہی نہیں آ رہا وہ دن رات آرمی چیف آرمی چیف کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ جس سے بظاہر ان کا مقصد صرف ایک ہی نظر آ رہا ہے کہ وہ میڈیا میں ان رہنا چاہتے ہیں جس کیلئے اپنی قد سے اونچی اونچی باتیں کرنا اور لمبی لمبی چھوڑنا ضروری ہے، اس کیلئے چاہے انہیں فضول اور غیرضروری بیانئے بنانے پڑیں یا کسی ادارے کی ساکھ کو داؤ پر لگانا پڑے انہیں تو مقبولیت اور دوبارہ اقتدار چاہئے حالانکہ چار سالہ اقتدار میں وہ یہ بات ثابت کر چکے ہیں کہ ان کے پاس نہ ہی اس ملک کے مسائل کا کوئی حل ہے اور نہ ہی کوئی وژن بس ادھر ادھر کی مارنے اور غیرضروری تقریریں اور بیانئے ہیں جس نے اس ملک کے کچھ حلقوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ وہ جب چاہیں کوئی غیرضروری اور بے معنی بیان دے کر خبروں میں اِن رہتے ہیں جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہیں۔ مجموعی طور پر ان کے پاس نہ ہی کوئی قابل اعتماد بیانیہ ہے اور نہ ہی اس ملک کے باسیوں کیلئے کوئی خوشخبری ہے۔ سیاسی مخالفین کو ہتک آمیز القابات سے نوازنا، ان کی نقلیں اتارنا اور تضحیک کرنے کو بیانیہ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ مصنوعی چیزیں ہیں جو بہت جلد ہی اپنی موت آپ مر جاتی ہیں۔ خدانخواستہ اگر انہیں دوبارہ اقتدار مل بھی جائے تو اس مرتبہ ملک کے کسی بڑے نقصان کا احتمال ہو سکتا ہے۔ گزشتہ حکومت کے دوران تو عوام نے انہیں چار سال تک برداشت کیا مگر آئندہ کیلئے صبر کا پیمانہ بہت جلد لبریز ہونے کا امکان ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں بیانئے نہیں کام بکتا ہے، پروگرام کو دیکھا جاتا ہے اورکارکردگی جانچی جاتی ہے۔ پاپولر نعروں سے اقتدار کی ایوانوں تک رسائی تو ممکن ہے مگر پائیداری کیلئے عقل و دانش اور تدبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر، ہزاروں ڈیمز، اربوں درخت اور اس طرح کے تمام ہوائی قلعے زمیں بوس ہو چکے ہیں۔ اس ملک کے باسیوں کو ان کے مسائل کا حل چاہئے۔ عوام کے مسائل روٹی کا حصول آسان بنانا، مہنگائی سے نجات، بجلی کی بلاتعطل فراہمی، صحت، تعلیم اور انصاف ہے۔ ان مسائل کیلئے عمران خان کے پاس کوئی جامع یا ٹوٹا پھوٹا پروگرام بھی نہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں بے دھڑک کہا جا سکتا ہے کہ خان صاحب کے ہوائی بیانئے دم توڑ رہے ہیں۔ اکثریت کی موت واقع ہو چکی ہے اور دیگر جو لایعنی قسم کے بیانئے باقی رہ گئے ہیں ان کی موت بھی عنقریب متوقع ہے۔ یعنی خان صاحب کی سیاست بیانیوں کا قبرستان بن چکی ہے۔ خان صاحب اگر غیرضروری نعرے اور بیانئے کی بجائے اس ملک کے اصل مسائل کا ادراک رکھتے تو انہیں نہ ہی غیرضروری بیانئے بنانے کی ضرورت پڑتی اور نہ ہی ان کے پاپولر بیانئے یوں ہی پے درپے موت کے گھاٹ اترتے۔