
خیبر پختونخوا میں ایک بار پھر دہشت گرد منظم ہورہے ہیں ؟
عزیز بونیرے
خیبر پختونخوا گزشتہ دو ماہ کے دوران دہشت گردوں کی جانب سے مختلف اضلاع میں حملوں نے ایک بار پھر اضافہ ہورہا ہے گزشت کئی ہفتوں سے مسلسل پولیس اور سیکورٹی فورسسز پر دہشت گرد حملوں کئی جوان شہید جبکہ دوسری جانب سیکورٹی فورسسز کے طرف دہشت گردوں کے خلاف کاروائیوں میں کئی دہشت گرد مارے گئے ،پشاور پولیس لائن پر حملے کے بعد سوات قبائلی اضلاع وزیرستان ،لکی ،اور ٹانک میں مسلسل حملوں سے عوام میںایک بار پھر دہشتگردوں کی دوبارہ منظم ہونے کا مبینہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے ،اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف سابق دورے حکومت میں سوات اور قبائلی اضلاع میں طالبان کی دوبارہ آمد اور صوبائی حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات پر صوبے کے مختلف اضلاع امن پاسون کے نام پر بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے جس میں لوگوں نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور اس وقت کے صوبائی ترجمان بریسٹر سیف کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ وہ کس حیثیت میں طالبان کو دوبارہ ان علاقوں میں آباد کرنے کیلئے مذاکرات کررہے ہیں جن لوگوں کی وجہ سے لاکھوں لوگ اپنی گھر چھوڑ کر دوسرے علاقوں منتقل ہوئے جن لوگوں کی وجہ سے ان علاقوں میں تعلیمی ادارے ،صحت مراکز ،مواصلاتی نظام تباہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہزاروں بے گناہ لوگ شہید ہوئے ،خیبر پختونخوا میں طالبان کی دوبارہ آمد کے خلاف احتجاجی مظاہروں سے اس وقت کے صوبائی حکومت نے یوٹرن لیتے ہوئے کہا کہ طالبان ضلع سوات میں طالبان دوبارہ آمد ایک اتفاق تھا وہ ایک شادی میں شرکت کرنے کیلئے آئے جس پر عوام نے احتجاجی مظاہروں میں واضح کردیا تھا کہ شادی میں ایک دو بندے اسکتا ہے ہزاروں کی تعداد میں دوبارہ طالبان کہاں سے نمودار ہوئے ،پاکستان تحریک انصاف حکومت کی آکری ادوار میں طالبان سے صوبائی حکومت کے رابطوں پر مختلف سیاسی جماعتوں شدید رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت طالبان کو دوبارہ خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں دوبارہ لانے کی کوشش کررہا ہے جس کی بھر پور مخالفت اور صوبے بھر میں طالبان کئی دوبارہ سرگرمیوں کیخلاف آوازاٹھنے سے کچھ دنوں کیلئے خاموش ہوگئے مگر گزشتہ دو ماہ سے ایک بار پھر خیبر پختونخوا میں دہشت گردی واقعات دوبارہ شروع ہوگئی،ان سیاسی جماعتوں میں عوامی نیشنل پارٹی کے قیادت کھل کر طالبان کو دوبارہ سوات اور قبائلی اضلاع میں سرگرمیوں کے خلاف آواز اٹھائی
پاکستان تحریک انصاف حکومت خاتمے کے بعد خیبر پختونخوا میں ایک بار پھر دہشت گردی واقعات میں اضافہ ہوگیا ،رواں سال دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ پشاور پولیس میں ہوا ،پشاور پولیس لائن خود کش حملے میں سو سے زائد اہلکار شہید ہوئے تھے جس کے بعد صوبے بھر میں سیکورٹی انتظامات بھی سخت کرنے کے باوجود تاحال دہشت گردوں کی جانب سے حملوں کا سلسلہ نہ روک سکا پشاور پولیس لائنز کے مسجد کے دھماکے کی منصوبہ بندی پولیس کے مطابق افغانستان میں ہوئی تھی اور خود کش حملے کے سہولت کار امتیاز خان نامی شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔پولیس لائنز پشاور کے حساس ترین علاقوں میں سے ایک ہے، جس کے ایک طرف سینٹرل جیل ہے اور دوسری جانب سروسز ہسپتال ہے۔ اس کے علاوہ صوبائی اسمبلی اور سول سیکرٹریٹ بھی اسی علاقے میں ہیں۔
اس کے بعدآپریل کے آکر ہفتے میںضلع سوات میں محکمہ انسداد دہشت گردی(سی ٹی ڈی)دھماکہ ہوا تھا جس میں سترہ اہلکار شہید ہوئے تھے جبکہ پچیس سے زائد زخمی ہوئے تھے تاہم پولیس نے اس وقت کہا تھا کہ ہمیں اس واقعہ میں دہشت گردی کا کوئی ثبوت نہ مل سکے بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ سی ٹی ڈی کمپانڈ کے پرانے تہہ خانے میں پڑا بارودی مواد بجلی کے شارٹ سرکٹ کے باعث دھماکے سے پھٹ گیا ہے۔ ڈی پی او سوات نے اس قت کہا تھا کہ کمپانڈ پر ہمیں باہر سے کسی قسم کی دہشت گردانہ کارروائی کے ثبوت نہیں ملے۔ضلع سوات میں طالبان ی دوبارہ آمد کے خلاف بنی والی اولسی پاسون جس میں مختلف سیاسی جماعتوں ،سول سوسائٹی ،وکلاء اور مختلف مکاتب فکر لوگ شامل تھے نے ضلع سوات میں امن کیلئے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا تھا جس میں لوگ بڑی تعداد میں شرکت کرتے تھے کیونکہ ضلع سوات میں طالبان کے خلاف آپریشن کے بعد مقامی لوگوں کا روزگار ،گھرتباہ ہوگئے تھے آب مزید لوگ ان علاقوں دوبارہ دہشت گرد منظم ہونے کیلئے تیار نہیں تھے سی ٹی ٹی سینٹر کبل میں دھماکے کے بعد بھی ضلع سوات میں بڑی تعداد میں لوگوں احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی اور مطالبہ کیا کہ وہ اس واقعے کی مکمل تحقیقات کریں اور تمام حقائق سامنے لایا جائے ،ان احتجاجی مظاہروں پاکستان تحریک انصاف کے سابق حکومت کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا کہ صوبائی وزراء اور ممبران اسمبلی اپنی جانوں کی حفاظت کیلئے طالبان کو بھتہ دینے کا الزام بھی لگایا جس کا ابی تک پی ٹی آئی کی جانب سے تردید بھی نہیں کی گئی
گزشتہ دنوں شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب لڑکیوں کے دو سکولوں کو مسلح افراد نے بارودی مواد سے نقصان پہنچایا ہے۔ یہ واقعات تحصیل میرعلی کے علاقے موسکی اور حیسوخیل میں پیش آئے جہاں نامعلوم افراد نے لڑکیوں کے دو سرکاری سکولوں کو بارودی مواد سے نقصان پہنچایا، لیکن جانی نقصان کوئی نہیں ہوا ہے۔اس واقع نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے تاہم تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔دھماکے سے تباہ کیے گئے ایک سکول کا نام گورنمنٹ گرلز سکول حافظ آباد جبکہ دوسرے کا نام گورنمنٹ گرلز سکول ڈاکٹر نور جنت گل ہے حالیہ دنوں میں شدت پسندی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اس طرح خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں سنگوٹہ کے علاقے میں ایک غیر سرکاری سکول کے سکیورٹی ملازم کی جانب سے 16 مئی کو طالبات کی گاڑی پر فائرنگ کے واقعہ سامنے آیا تھا۔اسی طرح رواں ماہ کے آغاز میں خیبرپختونخوا کے علاقے اپر کرم میں ایک سکول اور ایک وین پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے امتحانی ڈیوٹی پر مامور چار اساتذہ، دو مزدور اور ایک مسافر جان بحق ہوا ،جبکہ گزشتہ دنوںخیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو میں تیل اور گیس نکالنے کی غیر ملکی کمپنی کی سکیورٹی پر مامور چھ سکیورٹی اہلکاروں کو شدت پسندوں نے حملہ کرکے قتل کردیااس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) نے قبول کرنے کا دعوی کیا ہے۔۔ یہ واقعہ ہنگو کے علاقے آدم بانڈہ میں مول کمپنی کی ایکسپلوریشن سائٹ پر پیش آیا، جہاں شدت پسندوں نے بھاری ہتھیاروں سمیت سنائپر سے حملہ کیا۔حملے کے نتیجے میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے چار جوانوں سمیت نجی سکیورٹی کمپنی کے دو ملازم شہیدہوئے۔ یہ کمپنی ہنگو میں عرصے سے تیل اور گیس نکالنے کا کام کر رہی ہے اور اس کی سکیورٹی پر ایف سی کے جوانوں سمیت نجی کمپنی کے گارڈز بھی تعینات ہوتے ہیں۔مول ہنگری کی کمپنی ہے جو پاکستان میں 1999 سے تیل اور گیس نکالنے میں مصرف ہے۔ ہنگو کی تحصیل ٹل میں بھی اسی کمپنی کے پاس تیل اور گیس نکالنے کا ٹھیکہ ہے، جسے ٹل بلاک کہا جاتا ہے۔ ٹل بلاک میں ضلع کوہاٹ اور کرک کے کچھ علاقے بھی شامل ہیں، جہاں تیل و گیس کے ذخائر نکالنے کا کام جاری ہے۔
اس طرح گزشتہ روز خیبرپختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل میں ایک سکیورٹی چیک پوسٹ پر خودکش حملے کے نیتجے میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت چار افراد جان سے چلے گئے۔پولیس کے مطابق خود کش حملہ آور گاڑی میں سوار تھے اور انہوں نے چیک پوسٹ کے ساتھ گاڑی ٹکرا دی، دھماکے میں فوج کے دو اہلکار، ایک پولیس اہلکار اور ایک عام شہری چل بسا۔گذشتہ کچھ مہینوں سے وزیرستان سمیت جنوبی اضلاع میں شدت پسندوں کی جانب سے مختلف سکیورٹی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔گذشتہ اتوار کو بھی شمالی وزیرستان کے علاقے خیسور میں ایک سکیورٹی چیک پوسٹ پر حملہ ہوا تھا، جس ذمہ داری بھی ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی۔
خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں دہشت گردوں کی جانب سے پے درپے حملوں میں گزشتہ روز خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے پہاڑی علاقے بنجوٹ میں ایک غار کے اندر چھپے شدت پسندوں کے خلاف منگل کی شام شروع کیا گیا آپریشن کئی گھنٹے جاری ہونے کے بعد بے نتیجہ ختم ہوگیا کیونکہ شدت پسند فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔یہ آپریشن سوات کے منگلور پولیس سٹیشن کی حدود میں کیا گیا، جب مقامی آبادی کو شدت پسندوں کی موجودگی کا پتہ چلا۔منگلور پولیس کے مطابق مسلح افراد ایک غار میں چھپے ہوئے تھے اور پہلے مقامی آبادی کی جانب سے شدت پسندوں کے خلاف مزاحمت بھی کی گئی تھی، جس کے نتیجے میں ایک مقامی شخص جان سے چلا گیا تھا۔مقامی آبادی کو جب پتہ چلا کہ شدت پسند چھپے ہوئے ہیں تو پہلے تو انہوں نے خود ان کے ساتھ لڑائی شروع کی اور بعد میں پولیس اور سکیورٹی فورسز کو اطلاع دی، جس کے بعد مشترکہ آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا۔ آپریشن کے دوران ایک پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے، جنہیں طبی امداد کے لیے سیدو ٹیچنگ ہسپتال منتقل کیا گیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے خیبر پختونخوا حکومت کے آخری ادوار میں سوات کے علاقے مٹہ میں بھی چند مہینے پہلے شدت پسندوں نے ایک پولیس افسر سمیت دو سکیورٹی فورسز کے افسران کو یرغمال بنالیا تھا، جنہیں مقامی جرگے کی مدد سے بازیاب کروایا گیا اور جس کے بعد اس علاقے میں سکیورٹی فورسز نے آپریشن کا آغاز بھی کیا تھا۔اس واقعے کے خلاف سوات کے ہزاروں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر مظاہرہ کیا تھا، جن کا کہنا تھا کہ وہ سوات کو دوبارہ کبھی شدت پسندی کا مرکز نہیں بننے دیں گے۔اس سے قبل 2007 سیلے کر 2010 تک سوات بھر میں شدت پسندی کی ایک لہر سامنے آئی تھی، جس میں ہزاروں لوگوں کی جانیں گئیں اور سوات کے انفرانفراسٹرکچر کو بہت زیادہ نقصان پہنچا تھا۔اس زمانے میں لڑکیوں کے سکولوں کو بند کیا گیا تھا اور خواتین کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کی گئی تھی۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے سوات میں خود ساختہ پولیس سٹیشن اور چیک پوسٹس قائم کی گئی تھیں جبکہ عام لوگوں پر بھی مختلف پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔لیکن بعد میں ایک فوجی آپریشن کے نتیجے میں سوات میں امن قائم ہوا اور نقل مکانی کرنے والے افراد دوبارہ اپنے گھروں کو واپس چلے گئے لیکن گذشتہ چند مہینوں سے سوات میں چند ایک مقامات پر شدت پسندوں کے حملے کی اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں۔
خیبر پختونخوا میں گذشتہ کئی مہینوں سے پولیس اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے، جن میں سے زیادہ کی ذمہ داریاں کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کی جانب سے قبول کی جاتی ہیں۔اس سے پہلے ضلع کرک میں بھی مختلف شدت پسندی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں سکیورٹی فورسز اور پولیس تھانوں پر حملے بھی شامل ہیں،دھماکے سے تھانے کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا تھاایک طرف دہشت گردوں کی جانب سے مسلسل حملوں میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری جانب سیکورٹی فورسسز اور پولیس بھی کی جانب دہشت گردوں کے خلاف مختلف آپریشنز میں کئی دہشت گردوں کو بھی ہلاک کردیا جس میں کالعدم ٹی ٹی پی گنڈاپورکااہم کمانڈرجبارشاہ،لشکرجھنگوی سے تعلق رکھنے والے شدت پسند اقبال عرف بالی کھیارہ ختم کردیا جبکہ رواں ماہ کمانڈر مہتاب عرف لالہ سمیت 7 دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتار دہشت گرد مہتاب کا تعلق حافظ گل بہادر گروپ سے ہے۔ دہشتگردی کی متعدد کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔ سکیورٹی فورسز اور شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھے اور سکیورٹی ایجنسیوں کو انتہائی مطلوب تھے۔
محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی)نے خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافے سے متعلق رپورٹ جاری کردی۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ 4 ماہ کے دوران خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔رواں سال دہشت گردی کے واقعات کی تعداد بڑھ کر 180 ہوگئی ہے تاہم اپریل میں دہشت گردی کے واقعات میں 11 فیصد کمی ہوئی۔محکمہ انسداد دہشت گردی پولیس رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف 711 خفیہ آپریشنز میں 158 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا۔سی ٹی ڈی رپورٹ کے مطابق اس دوران مختلف آپریشنز میں 62 دہشت گرد ہلاک بھی ہوئے۔رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں سے 47 کلوگرام بارودی مواد، 150 دستی بم، خودکش جیکٹس سمیت اسلحہ بھی برآمد کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق رواں سال گذشتہ ماہ اپریل میں دہشت گردی کے واقعات میں 11 فیصد کمی رپورٹ ہوئی۔