سعدیہ نے ہمیں رلا دیا

 سعدیہ نے ہمیں رلا دیا

بشردوست

خیبر پختونخوا کے سابق گورنر صاحبزادہ خورشید کے ورثا نے اٹھ سو کنال کا وسیع رقبہ تعلیم کے فروغ کے لئے وقف کیا اور اس میں ایک لڑکوں کا کالج کھولا جس کا میں سب سے پہلا گریجویٹ سٹوڈنٹ بنا .وقت نے پلٹا کھایا اور یہ پہاڑوں اور میدانوں پر مشتمل رقبہ ویمن یونیورسٹی صوابی میں تبدیل ہوا ، آج اس خوبصورت جامعہ کے وسیع میدان میں خیبر پختونخواہ کے کونے کونے سے آئی ہوئی بچیاں موجودہ گورنر  غلام علی سے اپنی چارسالہ مسلسل محنت کی ڈگریاں وصول کر رہی تھیں.قہقہے خوشیاں رنگ اور تیز خوشبو اور موسیقی نے ہر طرف ایک سماں باندھا تھا اور ہر طرف نوخیز ذہین فطین شوخ و چنچل لڑکیاں اپنی کامرانیوں اور کامیابیوں میں اپنے بوڑھے ، جوان تعلیم یافتہ اور ان پڑھ والدین کو شامل کر رہے تھے اور ان کو اپنی کانوکیشن کی ٹوپیان پہنا کر پھولے نہیں سما رہی تھیں.آج اس ہال میں ایک فطین و ذہین لڑکی سعدیہ آفریدی کو جب گورنر نے سونے کا تمغہ پہنایا تو سب کے سامنے اس کے ضبط کے سارے بندھن  ٹوٹ گئے اور جب گورنر نے اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا تو بے قابو آنسووں کا  دریا ساری رکاوٹیں توڑتا ہوا بہہ نکلا اور اس معصوم بچی کے گالوں پر موتی جیسے آنسو دیکھ کر کسی کو بھی یہ یقین نہیں آیا کہ یہ خوشی کے آنسو ہیں یا انتہا دکھ درد اور غم کے موتی ہیں.سونے کا تمغہ ہاتھ میں لئے ہماری یہ فرشتہ صفت بیٹی الگ تھلگ کھڑی تھی کہ ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ آج اپ نے قانون کی ڈگری میں سونے کا تمغہ حاصل کیا ہے ذرا ہمارے ساتھ اپنی خوشی و تاثرات شریک کریں.چھوٹی سی گڑیا سی لیکن بہت سنجیدہ لڑکی نے جب اپنے لب کھولے تو سننے والے اور دیکھنے والوں کے دل چیر کر رکھ دئیے . اس لڑکی نے کہا کہ آج سب خوش ہیں ہنس رہے ہیں اور اپنی کامیابی پر اپنے والدین کو گلے لگا رہے ہیں ان کو ہار پہنا رہے ہیں اور اپنی مسرتوں کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ میرے والدین میری چاہتوں کے محور میری دنیا کو روشن کرنے والے آج مجھ سے کوسوں دور ستاروں کی دنیا میں آباد ہیں . یہ کہہ کر ٹپ ٹپ اس کی بھیگی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے .یہ بہادر لڑکی انسداد دہشت گردی کے جج آفتاب آفریدی مرحوم کی پیاری ہونہار بیٹی تھی جس کا پورا خاندان قانون کے میدان میں اپنی مثال آپ ہے لیکن پختونوں کی آپس کی دشمنیوں نے اس خاندان کے روشن چراغ دن دہاڑے بجھا دئیے ہیں.اسی لڑکی کے والد والدہ بھابی اور چھوٹا بھتیجا انبار کے مقام پر عین موٹر وے پر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا.پختونخوا اگر ایک طرف ذاتی دشمنیوں کی وجہ سے دوزخ بنا ہوا ہے تو دوسری طرف حالیہ دہشت گردی کی نئی لہر نے اس خطہ کو جلتی ہوئے شعلوں میں دھکیل دیا ہے اور پولیس لائن بم دھماکے میں پتہ نہیں کتنے بچے یتیم ہوئے ہونگے اور کتنی بیویاں بیوہ ہو گئیں ہونگی .آج سے کئی سال بعد جب یہی بچے اپنا گولڈ مڈل یا سند حاصل کریں گے تو انہیں یہ قیامت خیز دن سعدیہ کی طرح  ضرور یاد آئے گا اور انہیں دکھی و غمزدہ کرے گا .میری دعا ہے کہ ہمارا یہ گھر پختونخواہ امن و سکون کا گہوارہ بنے اور یہاں سے ہمیشہ کے لئے ذاتی و گروہی دشمنیاں ختم ہوں تاکہ یہاں بھی مسرت بھرے نغمے لوگ اور پرندے گا سکیں اور خوشی کے موقع پر ایسی بھیگی آنکھیں اور آنسو دیکھنے کو نہ ملیں .آج اس موقع پر واقعی سعدیہ  نے ہمیں رلایا اور ہماری دعا ہے کہ اللہ پاک ان کوصبر استقامت اور ڈھیر ساری خوشیاں نصیب کریں.امین ۔