
پی ٹی آئی پر غیرملکی ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہو گئی، عمران خان کا بیان حلفی جھوٹا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان
عزیز بونیرے/ مانیٹرنگ ڈیسک
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے8 سال بعد پاکستان تحریک انصاف کے غیرملکی فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنا دیا۔ پی ٹی آئی پر غیرملکی ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہو گئی، عمران خان کا بیان حلفی جھوٹا ہے۔ الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کی ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈنگ لی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کو غیرملکی فنڈنگ موصول ہونے پر شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔
گزشتہ روز الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ10 بجے سنانے کا اعلان کیا تھا تاہم کچھ دیر کی تاخیر کے بعد چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے تین رکنی بینچ کا متفقہ فیصلہ سنایا۔
فیصلے کے اہم نکات:
ثابت ہوا کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈ لیے ہیں۔13 نامعلوم اکاؤنٹس سامنے آئے۔ امریکا، آسٹریلیا اور یو اے ای سے عطیات لی گئیں۔ پی ٹی آئی ان اکاؤنٹس کے بارے میں بتانے میں ناکام رہی۔ آئین کے مطابق اکاؤنٹس چھپانا غیرقانونی ہے۔ پی ٹی آئی نے 34 غیرملکیوں،351 کاروباری اداروں اور کمپنیوں سے فنڈز لیے۔ پی ٹی آئی نے عارف نقوی کی کمپنی ووٹن کرکٹ سے ممنوعہ فنڈنگ لی۔ عارف نقوی کی کمپنی سے21 لاکھ21 ہزار500 امریکی ڈالرز ممنوعہ فنڈنگ لی گئی۔ یو اے ای کی کمپنی برسٹل انجنیئرنگ سروسز سے49 ہزار965 ڈالرز ممنوعہ فنڈنگ لی۔ سیا سی جماعتوں کے ایکٹ کے آرٹیکل6 کے مطابق ممنوعہ فنڈنگ ہے۔ عمران خان نے فارم ون جمع کرایا جو غلط بیانی اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ پارٹی اکاؤنٹس سے متعلق دیا گیا بیان حلفی جھوٹا ہے۔
ممنوعہ فنڈنگ کیس کا پس منظر
14 نومبر2014 کو پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی جانب سے الیکشن کمیشن میں یہ کیس دائر کیا گیا تھا جس کی 8 سالہ طویل سماعت میں پی ٹی آئی نے30 مرتبہ التوا مانگا اور پی ٹی آئی نے6 مرتبہ کیس کے ناقابل سماعت ہونے یا الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار سے باہر ہونے کی درخواستیں دائر کیں تاہم21 جون2022 کو اس کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے21 بار پی ٹی آئی کو دستاویزات اور مالی ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ فنڈنگ کیس کے لیے پی ٹی آئی نے9 وکیل تبدیل کیے جب کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی فنڈنگ کی جانچ پڑتال کے لیے مارچ2018 میں اسکروٹنی کمیٹی قائم کی، اسکروٹنی کمیٹی کے95 اجلاس ہوئے جن میں24 بار پی ٹی آئی نے التوا مانگا جب کہ پی ٹی آئی نے درخواست گزار کی کمیٹی میں موجودگی کے خلاف4 درخواستیں دائر کیں، اسکروٹنی کمیٹی نے20 بار آرڈر جاری کیے کہ پی ٹی آئی متعلقہ دستاویزات فراہم کرے۔
الیکشن کمیشن نے اگست2020 میں اسکروٹنی کمیٹی کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ رپورٹ نامکمل ہے اور تفصیلی نہیں۔ اسکروٹنی کمیٹی نے4 جنوری2022 کو حتمی رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرائی۔ اسکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی بینک اسٹیٹمنٹ سے متعلق اسٹیٹ بینک کے ذریعے حاصل8 والیمز کو خفیہ رکھا اور الیکشن کمیشن کی ہدایت پر8 والیم اکبر ایس بابر کے حوالے کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو دی گئی دستاویزات میں31 کروڑ روپے کی رقم ظاہر نہیں کی، تحریک انصاف کو یورپی ممالک اور مشرق وسطی کے ممالک کے علاوہ امریکا، کینیڈا، برطانیہ، جاپان، سنگاپور، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈ اور فن لینڈ سمیت دیگر ممالک سے فنڈ موصول ہوئے۔ اسکروٹنی کمیٹی نے امریکا اور دوسرے ملکوں سے فنڈنگ کی تفصیلات سے متعلق سوالنامہ پی ٹی آئی کو دیا مگر واضح جواب نہیں دیا گیا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے غیرملکی اکاؤنٹس تک رسائی بھی نہیں دی گئی۔ پی ٹی آئی نے گوشواروں میں ایم سی بی، بینک آف پنجاب اور بینک آف خیبر کے اکاؤنٹس کو ظاہر نہیں کیا جب کہ اسٹیٹ بینک ڈیٹا کے مطابق پی ٹی آئی کے پاکستان میں26 بینک اکاؤنٹس ہیں۔
پی ٹی آئی نے2008 سے2013 کے دوران14 بینک اکاؤنٹس چھپائے، پی ٹی آئی نے اسکروٹنی کمیٹی رپورٹ پر جواب میں 11 اکاؤنٹس سے اظہار لاتعلقی کیا اور کہا یہ غیرقانونی طور پر کھولے گئے۔ یہ اکاؤنٹس اسد قیصر، شاہ فرمان، عمران اسماعیل، محمود الرشید، احد رشید، ثمر علی خان، سیما ضیا، نجیب ہارون، جہانگیر رحمان، خالد مسعود، نعیم الحق اور ظفر اللہ خٹک نے کھولے۔ پاکستان تحریک انصاف نے عمران خان کے دور حکومت میں28 کروڑ روپے سے زائد کے فنڈز اکٹھے کئے، عطیات کی آخری قسط پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کے خاتمے سے دو ہفتے پہلے ملی، پچھلے11 سال میں پی ٹی آئی نے ایک ارب 10 کروڑ روپے سے زائد کے عطیات لئے۔ امریکا کے ڈپارٹمنٹ آف جسٹس دستاویزات میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ تحریک انصاف نے عمران خان کی وزارت عظمی کے دور میں امریکا سے28 کروڑ سے زائد کے فنڈز اکٹھے کئے۔ ڈپارٹمنٹ آف جسٹس کی دستاویزات کے مطابق پچھلے11 سال میں پارٹی نے ایک ارب10 کروڑ سے زائد عطیات لئے، مجموعی طور پر45 لاکھ امریکی ڈالر کے عطیات پارٹی کو ملے، پارٹی نے6 کمپنیوں کے ذریعے فنڈز اکٹھے کئے،7 ہزار افراد اور100 سے زائد کمپنیوں نے پارٹی کو امریکا سے فنڈز بھیجے۔
رپورٹ کے مطابق عمران خان کی پارٹی کو آخری عطیات کی قسط ان کی حکومت کے خاتمے سے دو ہفتے پہلے ملی، تحریک انصاف کو12 لاکھ امریکی ڈالر کے عطیات پچھلے ساڑھے3 سال میں ملے۔ تحریک انصاف نے2010 سے2017 کے دوران امریکا سے34 کروڑ ڈالر کے فنڈز اکٹھے کئے۔ ڈپارٹمنٹ آف جسٹس کے ریکارڈ کے مطابق امریکی نژاد سجاد برکی، کلثوم سید، جنید بشیر، امجد صدیقی، سام خان، فیصل ارشاد، قمر زمان، علی عاصم، ڈاکٹر رزاق، ڈاکٹر طارق بٹ، ابرار خان، ڈاکٹر عبداللہ ریاض، کلیم سید، محمد اکرم، محمد این خان، عبدالحفیظ خان اور سلمان آفتاب کی جانب سے فنڈز اکٹھے کرنے کی اس مہم کے سلسلے میں تقریباً آدھا درجن کے قریب ادارے رجسٹر کرائے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ100 سے زائد مقامی لوگوں، پرائیویٹ اداروں، کمپنیوں، این جی اوز اور افراد نے تحریک انصاف کی اس مہم کے دوران فنڈز عطیہ کیے، ان غیرملکیوں کی جانب سے فارن ایجنٹ رجسٹریشن ایکٹ1938 کے تحت امریکی ڈپارٹمنٹ آف جسٹس کے ساتھ خود کو رجسٹر کرایا گیا، تقریباً چار ہزار فعال فرموں اور افراد کی فہرست حالیہ دنوں میں جاری کی گئی ہے۔ تحریک انصاف ایل ایل سی امریکا کے سام خان اور دیگر کی جانب سے ستمبر2021 میں2 لاکھ93 ہزار821 امریکی ڈالر کی امداد اکٹھی کی گئی۔
دستاویزات کے مطابق تحریک انصاف امریکا کے اکبر خان کی جانب سے ڈپارٹمنٹ آف جسٹس کو فراہم کی جانے والی معلومات کے مطابق انہوں نے مارچ2022 میں8 ہزار ڈالر کی امداد اکٹھی کی جبکہ امریکی نژاد احسن مقصود اور عمر خان کی جانب سے اکتوبر2018 میں ڈپارٹمنٹ آف جسٹس کے پاس جمع کرائی گئی تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف نے ستمبر 2019 میں مختلف عطیہ دینے والوں سے5 ہزار748 ڈالر چندہ اکٹھا کیا۔ دستاویزات کے مطابق تحریک انصاف نے اپریل2020 میں امریکا سے ایک لاکھ7 ہزار220 ڈالر فنڈ اکٹھے کئے۔ ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس کو فراہم کی گئی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ تحریک انصاف امریکا ایل ایل سی کیلیفورنیا نے ایک فرم کے ذریعے ستمبر2018 میں4 لاکھ80 ہزار ڈالر کے فنڈز جمع کیے۔ سرکاری دستاویزات میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ تحریک انصاف نے30 اپریل2017 کو ایک لاکھ17 ہزارڈالر کی امداد اکٹھی کی۔ اگرچہ تحریک انصاف امریکا ایل ایل سی کی جانب سے چار لاکھ ایک ہزار956 ڈالر کی امداد اکٹھی کی گئی تاہم اپریل2015 میں تین لاکھ5 ہزارڈالر اور اکتوبر2016 میں75 ہزار ڈالر کی رقم تحریک انصاف پاکستان کے اکاؤنٹس میں منتقل کی گئی۔
امریکی نژاد شہری اور تحریک انصاف امریکا ایل ایل سی کیلیفورنیا کے صدر سجاد برکی امداد اکٹھی کرنے کی اس مہم کا حصہ تھے۔ سال2014 میں تحریک انصاف کو اس کے کئی مقامی اکاؤنٹس کے ذریعے90 ہزار ڈالر کی امداد امریکا سے موصول ہوئی،2010 میں امریکی نژاد محمد خان کی جانب سے رجسٹر کرائی جانے والی تحریک انصاف امریکا ایل ایل سی (رجسٹریشن نمبر 5975) نے فروری2010 سے جون2013 کی مدت میں23 کروڑ44 لاکھ ڈالر کی امداد اکٹھی کی، جبکہ رجسٹریشن نمبر 6160 کے تحت رجسٹر کرائی گئی ایک اور فرم نے اپریل2013 سے اپریل2017 کے دوران8 لاکھ50 ہزار ڈالر کی امداد اکٹھی کی جبکہ فنڈ ریزنگ کی یہ مشق ابھی بھی جاری ہے۔ سرکاری دستاویزات میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ تحریک انصاف پاکستان کو2011 میں ایک لاکھ90 ہزار ڈالر کی رقم موصول ہوئی۔ تحریک انصاف نے جون2012 میں77 ہزار500 ڈالر کی امداد اکٹھی کی جبکہ مختلف کمپنیوں کے ذریعے دستمبر2012 میں تحریک انصاف کو دو لاکھ84 ہزار ڈالر کی امداد ملی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اور الیکشن کمیشن کی جانب سے بیک وقت تحریک انصاف کے خلاف متفرق مقدمات کی سماعت کا حکم دیا گیا کیونکہ تحریک انصاف کی جانب سے مبینہ طور پر2010 کے بعد مختلف کمپنیوں اور افراد کے ذریعے امریکا سے فنڈز اکٹھے کئے جاتے رہے ہیں۔
دستاویزات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، آل پاکستان مسلم لیگ اور متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے بھی فنڈز اکٹھے کرنے کی غرض سے امریکا میں مہم کے سلسلے میں کمپنیوں کا قیام عمل میں لایا گیا، تاہم ان تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے کبھی ان کمپنیوں اور اداروں کو منظر عام پر نہیں لایا گیا اور نہ ہی2015-16 میں جمع کرائی گئی ان کے اثاثوں کی سالانہ تفصیل میں اس کا کوئی ذکر موجود ہے، جو کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر2002 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہ قانون واضح طور پر بتاتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے نجی یا مقامی سرکاری اداروں کے ذریعے بیرون ملک سے امداد کا حصول صریح ممنوع ہے۔ پولیٹیکل پارٹیز آرڈیننس2002 کے چیپٹر2 کے مطابق بیرونی حکومتوں، ملٹی نیشنل اور مقامی سرکاری و نجی کمپنیوں، فرموں، تجارت اور پیشہ ورانہ اداروں کے ذریعہ براہ راست یا بالواسطہ امداد کا حصول صریح ممنوع ہے اور اس طرح سے حاصل ہونے والی کوئی بھی بیرونی امداد آرٹیکل6 کے جزو3 کے تحت ناجائز شمار ہو گی۔ دستاویزات میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ کچھ نجی کمپنیوں کی جانب سے بھی تحریک انصاف کی امریکا میں فنڈز اکٹھے کرنے کی مہم میں براہ راست یا بالواسطہ حصہ ڈالا گیا ہے۔ فنڈ ریزنگ میں حصہ لینے والی ایسی کمپنیوں میں ایگزیکٹو بروکیج، بیری سی شینپس، لیب یو ایس اے انکارپوریٹ، کراس لینڈ سروس، فاسا کنٹریکٹنگ انکارپوریٹ، میٹالاک انڈسٹریز انکارپوریٹ، بلیو اسٹار کنٹریکٹنگ، صنوبر انٹرپرائزز، ایلفا ریسٹوریشن، فرینڈلی رائیڈ انکارپوریٹ، اولڈ ناردرن آٹو باڈی، ڈارٹس کنٹریکٹنگ کمپنی، فریڈم لائن لمیٹڈ، بایو کیمسٹری ٹیکنالوجی لیب، آئی ایم جی سی گلوبل، رائے اسموک پلس، آئی ایم جی سی گلوبل، ایل ایل سی، نیکسالوجک ٹیکنالوجیز، زائٹک کارپوریشن، کری ویلیج فوڈز، ایونٹ برائٹ نیویارک، اسنو بلیز کارپوریشن، سبناز انٹرنیشنل سینچری21 ٹاؤن اینڈ کنٹری، ایم پیشنٹ کیئر، پیٹر میکنی اسمائل، ایونٹ برائٹ، نیو ویو ٹریول، ایڈوانسڈ کارڈیو ویسکولر، ہیلنگ ہینڈ ورجینیا، اولڈ ناردرن آٹو باڈی، کرسٹل کوئیک، ایم سی پی کنٹریکٹنگ ایل ایل سی، پیک پرفارمنس، مِڈ ویسٹ میڈیکل گروپ، آشی سیلونز، ان کارپوریٹ کیٹی، او ایس ڈی منیجمنٹ ایل ایل سی، سرکولر ایکسپرٹس، ریکوگا، ٹیکس میجک، سراٹوگا ڈینٹل، خین انکارپوریٹ، ہاسپٹل کنسلٹنگ، کیلول اپریزل سروسز انکارپوریٹ، اے ون ٹوون، 1656477 ایلبرٹا لمیٹڈ،1346274 ایلبڑٹا لمیٹڈ،1376915 ایلبرٹا انکارپوریٹ، نیکسالوجک ٹیکنالوجیز انکارپوریٹ، اے زیڈ پاک فرینڈز، کوالٹی فیول، چیکرز ٹرک اسٹاپ انکارپوریٹ، ولید انویسٹمنٹس انکارپوریٹ،1656477 ایلبرٹا لمیٹڈ، فرسٹ میڈیکل کیئر، پاشا اینڈ ایسوسی ایٹس انکارپوریٹ، پلمونری آئی سی یو میڈیکل پی ایل ایل، تلہاسی ڈرلنگ ان کارپوریٹ،1059525 ایلبرٹا لمیٹڈ، چیا ٹرک ایسوسی ایٹ، آفتاب قادر، چیاٹرک ایسوسی ایٹ، پاکم اینڈ ڈی بی اے ڈش لنک، ڈش ایکسپریس ایل ایل سی، ایس جے واٹس، پرائم موٹرز ایل ایل سی، ایس ایچ ایس، آئی جی آئی وی یو ایل ایل سی، کنگ آٹو ریپیئر اینڈ باڈی شاپ ان کارپوریٹ، کیفے ڈسکارٹس کمپنی، پرورائیڈر لیدر، ایڈوانس میڈیکل ایکوپمنٹ ان کارپوریٹ، ففٹی تھرڈ اسٹریٹ کارپوریشن، اسپیکٹرم ڈائیگاناسٹکس ایمجنگ انکارپوریٹ، بی اینڈ ایم انکارپوریٹ، مڈویسٹ کرکٹ کانفرنس، جی ایس گیس ایل ایل سی، دی ولیم واشنگٹن لمیٹڈ لائبلٹی کمپنی، ہیلن تیوہ اووسو اکوٹو، کارکور اووسو اکوٹو اٹلس خان، اے ہائی ٹیک ریفریجریشن، مڈوے ایئرپورٹ ہوٹل پارٹنر شپ، مڈوے ٹریڈنگ گروپ این کارپوریٹ، کیم کویسٹ انٹرنیشنل انکارپوریٹ، شاگو اسٹیجنگ ، اسمیکمڈ ایل ایل سی، ہیلنگ ہینڈز آف ورجینیا پی ایل ایل سی، کیش ان ڈیبٹ، اے پلس وائرلیس، پیڈیاٹرک آف سرسوٹا انکارپوریٹ، ڈی بی اے میکس کارنر، ورجینیا ہیلتھ اینڈ ویلنیس پی سی، پیڈیا ٹرک آف سرسوٹا انکارپوریٹ، پن اسٹیٹ ان کارپوریٹ، چاڈ فورڈ ڈینٹل ویلج، ایچ ایم ای ایگزیکٹو کوچ انکارپوریٹ، مارورک کری ایٹو کنسپٹس ایل ایل سی، اسمیکمڈ ایل ایل سی، ہیلنگ ہینڈز آف ورجینیا، والکینوز، مائیکرو شاپ ٹریڈنگ لمیٹڈ، ایوون اسٹور، فوکس آٹو لمیٹڈ، پروبیسٹ انکارپوریٹ، نیکس جی موبیلٹی، بیٹی ہوم امپروومنٹس، لاریسا پرفینٹیوا، ایٹوریو لمیٹڈ، لوگو آرینا، کلک اینڈ کولیکٹ لمیٹڈ، مائی پرائم ٹریڈنگ، فون ورلڈ، دی ولیم واشنگٹن لمیٹڈ ایل آئی، ٹی ڈیلی شاپ، اسپیکٹرم ڈائیگناسٹک امیجنگ، بارگین بے شامل ہیں۔دیگر کمپنیوں میں ایمپریشن ٹیکسٹائلز، کے اے سروسز (یو کے) لمیٹڈ، کلک پرنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ، کنگ سویٹ ان کارپوریٹ، میجک ٹوائز لمیٹڈ، بیسٹ بائیز ایل ایل سی، کیفے ڈسکارٹس کمپنی، ماربل ویلے، برائٹ اسمائلز ایل ایل سی، پاور لین انکارپوریٹ، ڈاٹ ویژن سسٹمز لمیٹڈ، سیمکو پارٹس، مڈوے ایئرپورٹ ہوٹل پارٹنرشپ، اریبل انٹرپرائزز، چائیوز، بوم امپورٹس، لائینکس لاٹ، کروز ویب، الائز سیکیورٹی سروسز، مائی فون ریپئرز انکارپوریٹ، ایکسپریسٹکس، لنک سینس جی ایم بی ایچ، سائبرکیوسٹ سلوشنز، اسٹائلو گروپ لمیٹڈ، سسیکوچر، ان ٹیل بی ایس ان کارپوریٹ، آئی ٹیشن، لیونزیو لمیٹڈ، برائٹ ٹریڈرز، ڈیجیٹکسرز، جی پی ٹولز یوکے پرائیویٹ لمیٹد، ویلبری یو کے لمیٹڈ، ایس جے واٹس، کافی کلچر، ٹریڈ ان ڈیڈ ڈاٹ کام، ایٹ ایز، ای بگ بائز ڈاٹ کام، فکس مائی فون، لاجیکس موبیلٹی، ایم ایس ایچ زیڈ انٹرنیشنل، این وائے سی یوزڈ کار سیلز انکارپوریٹ، پرائم موٹرز ایس ایل سی، ایٹلانٹا بیسٹ یوزڈ کارز، بیہانڈ ای بی سی، پیسیفک سروس ایل ایل سی، اے اے ڈرائیونگ اکیڈمی انکارپوریٹ، کوانٹم ایس سی او لیبز، ٹیکسپرٹز فوٹوگرافی بھی شامل ہیں، اس فہرست میں اضافہ جاری ہے۔
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے2011 سے2012 کے دوران تقریباً ایک لاکھ64 ہزار ڈالر کے فنڈز اکٹھے کئے گئے، تاہم دستاویزات سے یہ پتا نہیں چلتا کہ آیا یہ فنڈز منتقل کئے بھی گئے یا نہیں۔ دو امریکی نژاد رضا بخاری اور عدیل شاہ نے مشترکہ طور پر3 کمپنیاں اے پی ایم ایل۔ ایل ایل سی قائم کیں، ان کمپنیوں (رجسٹریشن نمبر 6062، 6018، 6019) کو ڈپارٹمنٹ کے ساتھ رجسٹر کیا گیا اور انہوں نے مشترکہ طور پر دو لاکھ70 ہزار ڈالر کے فنڈز اکٹھے کئے۔ آل پاکستان مسلم لیگ کے ڈاکٹر امجد نے بیرونی امداد قبول کرنے کے الزام سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے بیرون ملک سے ایک دھیلا وصول نہیں کیا، نہ کسی پاکستانی کمپنی یا ڈونر ایجنسی سے۔ ریکارڈ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری نے برسن مارسٹیلر (رجسٹریشن نمبر2469 ) کے نام سے اپنی کمپنی2016 میں رجسٹر کرائی، یہ کمپنی30 جون2017 تک فعال رہی۔
دستاویزات میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے بھی امریکا میں فرم کو بحیثیت این پی او رجسٹر کرایا۔ اس رجسٹریشن کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پر ایم کیو ایم کی جانب سے نائن زیرو کا پتہ درج کرایا گیا، اس سلسلے میں عباد الرحمان اور اعجاز صدیقی نے امریکا سے ایم کیو ایم کیلئے فنڈنگ کی، یہ فنڈنگ ایم کیو ایم کے پاکستان میں متعدد پراجیکٹس کیلئے استعمال کی گئی۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) نے2018 میں فنڈز اکٹھا کرنے کیلئے اپنی فرم کو امریکی محکمہ انصاف میں رجسٹر کرائی، ن لیگ اور ایم کیو ایم کو سوالات بھیجے گئے لیکن جواب نہیں آیا۔
اکبر ایس بابر
پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کے درخواست گزار اکبر ایس بابر نے عمران خان سے فوری استعفے کا مطالبہ کر دیا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں اکبر ایس بابر نے کہا کہ یہ کیس آئی اوپنر (چشم کشا) ہے، آزاد الیکشن کمیشن نے فرد جرم عائد کردی ہے اور پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس دے دیا ہے، تمام الزامات ثابت ہو چکے ہیں، اس لیے سمجھتا ہوں کہ وقت آ گیا ہے کہ تحریک انصاف میں رجیم چینج ہو۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد عمران خان کو استعفی دینا چاہیے، اس بڑے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کو اس کے نظریاتی کارکنان کے حوالے کرنا چاہیے، کوئی وجہ نہیں کہ عمران خان استعفی نہ دے۔ فیصلے سے یہ جنگ حق و باطل کے درمیان تھی اور اس میں جیت سچائی کی ہو گی، فیصلہ جو بھی آئے ہم سپریم کورٹ میں بھی جائیں گے۔ میری نظر میں عمران خان آؤٹ ہے، اب یہ طے کرنا باقی ہے کہ وہ کلین بولڈ ہیں یا سلپ پر آؤٹ ہوئے۔ پوری توقع ہے کہ فیصلہ میرے حق میں آئے گا،8 سال پہلے دو رکعت نفل پڑھے تھے اور آج بھی دو رکعت نفل پڑھ کر نکلا ہوں، اللہ سے انصاف کی دعا کی ہے۔ اس کیس میں یہاں تک پہنچنا بھی بہٹ بڑی بات ہے، میں آخری وقت تک لڑوں گا اور فتح پاکستان کی ہو گی۔
شاہد خاقان عباسی
پاکستان مسلم لیگ ن کے سیئنر نائب صدر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے آج کے الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ثابت ہو گیا کہ سب سے بڑا چور عمران خان اور چور پارٹی پی ٹی آئی ہے۔ پاکستان کا قانون ایک بھی غیرقانونی اکاؤنٹ کی اجازت نہیں دیتا لیکن یہاں تو ایک طویل تفصیل ہے،34 غیرملکی اور351 کمپنیوں سے فنڈنگ لی گئی۔ عمران خان کو فنڈنگ کرنے والوں میں اسرائیلی اور بھارتی بھی شامل ہیں، امریکا سے جو فنڈنگ آئی اس کی لمبی تفصیل ہے، جب ان معاملات کی مزید تفتیش ہو گی تو بڑے بڑے حقائق سامنے آئیں گے، تفصیلی فیصلہ پڑھنے کے بعد قوم کو مزید حقائق سے آگاہ کریں گے۔ میں تو کئی بار کہہ چکا ہوں کہ عمران خان کا ایک بھی سچ بتا دیں جو انہوں نے بولا ہو، عمران خان نے150 کروڑ روپے غیرقانونی طور پر حاصل کیے، اگر یہ فلاح و بہبود کے پیسے تھے تو سیاسی جماعت کے اکاونٹ میں55 کروڑ روپے کیسے آئے، عمران خان نے قوم اور الیکشن کمیشن سے جھوٹ بولا۔ ان کا کہنا تھا جو پیسے کے لیے قانون اور آئین توڑ سکتے ہیں تو آپ سوچیں کہ وہ ملک کے ساتھ کیا کر سکتے ہیں، یہ قوم کے جاگنے کا وقت ہے، آج الیکشن کمیشن نے عمران خان اور پی ٹی آئی کی حقیقت68 صفحات کی رپورٹ میں پیش کر دی ہے، بات صرف سیاست کی نہیں بلکہ اخلاقیات کی اور لیڈرشپ کی ہے، جو آدمی الیکشن کمیشن سے جھوٹ بول سکتا ہے۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ کون صادق اور کون امین ہے؟ اس ملک کی سپریم کورٹ نے خود ٹرائل کورٹ بن کر ملک کے منتخب وزیراعظم کو صرف اس بات پر نااہل کیا کہ اس نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہیں لی تو کیا آج عمران خان صادق اور امین ہے، عمران خان جھوٹے بیان حلفی دے رہا ہے، غیرملکیوں سے فنڈ لے رہا ہے، اس معاملے پر قانون اپنا راستہ لے گا۔
کنور دلشاد
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا ممنوعہ فنڈنگ کی وضاحت کرتے ہوئے کہنا ہے کہ کوئی بھی غیرملکی کمپنی یا فرد جو کہ پاکستانی نہ ہو اس سے کوئی بھی سیاسی جماعت اگر پارٹی کے امور چلانے کیلئے فنڈز حاصل کرے تو یہ ممنوعہ فنڈنگ کے زمرے میں آتا ہے۔ الیکشن کمیشن ایکٹ2017 کی شق204 اس بارے میں بڑی واضح ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اگر ایک ڈالر بھی ممنوعہ فنڈنگ کی مد میں آ جائے تو الیکشن کمیشن کو یہ فنڈز ضبط کرنے کا اختیار ہے۔ الیکشن ایکٹ کی204 سے212 تک شقیں ممنوعہ فنڈنگ کے بارے میں ہی ہیں جبکہ الیکشن ایکٹ کی شق215 اس بارے میں کہتی ہے کہ اگر کسی سیاسی جماعت کی ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہو جائے تو ای سی پی کے پاس اس جماعت کا انتخابی نشان واپس لینے کا اختیار ہے، جس کے بعد ایسی سیاسی جماعت جس پر ممنوعہ ذرائع سے حاصل فنڈز کا الزام ثابت ہو جائے تو اس جماعت کی رجسٹریشن بھی منسوخ ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی پاکستانی غیرملک میں مقیم ہے اور وہ پاکستانی شہریت کو چھوڑ کر اس ملک کی شہریت اختیار کر چکا ہے، اگر وہ بھی پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کو فنڈز دیتا ہے تو وہ بھی ممنوعہ فنڈنگ کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن چاہے تو ایسی جماعت کو کالعدم قرار دلوانے کیلئے سپریم کورٹ کو ریفرنس بھجوا سکتا ہے۔ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر2002 واضح طور پر بتاتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے نجی یا مقامی سرکاری اداروں کے ذریعے بیرون ملک سے امداد کا حصول صریحاً ممنوع ہے۔ پولیٹیکل پارٹیز آرڈیننس2002 کے چیپٹر2 کے مطابق بیرونی حکومتوں، ملٹی نیشنل اور مقامی سرکاری و نجی کمپنیوں، فرموں، تجارت اور پیشہ ورانہ اداروں کے ذریعہ براہ راست یا بالواسطہ امداد کا حصول صریحاً ممنوع ہے اور اس طرح سے حاصل ہونے والی کوئی بھی بیرونی امداد آرٹیکل6 کے جزو 3 کے تحت ناجائز شمار ہو گی۔
فواد چوہدری
پی ٹی آئی رہنماء اور وفاقی وزیر فواد چوہدری نے الیکشن کمیشن کے فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کے لیے یہ فنڈنگ اوور سیز پاکستانیوں کی ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ سمجھ نہیں آتی ن لیگ، جے یو آئی نے اورسیز پاکستانیوں کو اپنا دشمن کیوں سمجھ لیا ہے۔ تحریک انصاف کے لیے یہ فنڈنگ اوور سیز پاکستانیوں کی ہے، شروع دن سے ہمارا موقف ہے کہ یہ فارن فنڈنگ نہیں ہے، پی ٹی آئی کے علاوہ کوئی جماعت فارن فنڈنگ نہیں لیتی کیونکہ ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ریڑھ کی ہڈی سمجھتے ہیں، ہم آگے بھی فنڈنگ کے لئے اوورسیز پر ہی انحصار کریں گے۔ الیکشن کمیشن نے بھی کہا کہ فارن فنڈنگ نہیں ہے، اب اگلا مرحلہ شروع ہو گا جس میں ہم بتائیں گے کہ16 اکاؤنٹس بھی قانونی ہیں۔ کسی جماعت کو یہ حق نہیں کہ اپنی فنڈنگ عوام سے چھپائے، پی ٹی آئی کا فیصلہ آپ نے کر لیا اب دیگر جماعتوں کا فیصلہ بھی جلد کر لیں، آڈیٹر نے کہا کہ یہ اکاؤنٹس کلیئر ہیں، یہ 16 اکاؤنٹس سبسڈری اکاونٹس ہیں، جماعت کو خطرہ صرف ایک ہوتا ہے کہ عوام میں مقبولیت کھو دیں، ہمیں تو یہ خطرہ نہیں ہے، یہ خطرہ تو ن لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کو ہے، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے فیصلے موجود ہیں کہ تینوں جماعتوں کے کیسز کا فیصلہ الیکشن کمیشن کرے۔