سیاسی کشیدگی'کیا ملک لامتناہی انتشار کامتحمل ہوسکتا ہے؟ 

سیاسی کشیدگی'کیا ملک لامتناہی انتشار کامتحمل ہوسکتا ہے؟ 

پچھلے دو دن زمان پارک لاہور میں جو کچھ ہوتا رہا،اسے افسوسناک ہی کہا جا سکتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جو کچھ دونوں طرف سے روا رکھا گیا اِس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔عمران خان کی گرفتاری اتنا بڑا مسئلہ کیوں بنا لیا گیا ہے کہ پورا سیاسی نظام ہی دا پر لگ چکا ہے۔بالفرض عمران خان کی گرفتاری ہو بھی جاتی ہے تو کیا اس سے معاملات میں ٹھہرا آ جائے گا۔اتنے طویل آپریشن کے بعد بھی پولیس تادمِ تحریر یہ گرفتاری عمل میں نہیں لا سکی تھی اِس میں کوئی شک نہیں کو عمران خان نے بھی ایک ضد بنا رکھی ہے کہ کسی مقدمے میں گرفتار  نہیں ہونا، اس کے لئے ان کے پاس اپنے دلائل ہیں لیکن اس معاملے کو جس طرح ایک بڑا ایشو بنا دیا گیا ہے اور پولیس نے زمان پارک میں ہزاروں آنسو گیس کے شیل فائر کئے اور واٹر کینن کا بے دریغ استعمال کیا، نیز پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرف سے مال روڈ کو جنگ و جدل کا میدان بنا دیا گیا،اسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ کہیں نہ کہیں غلطی ضرور ہوئی ہے، ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا اور اس معاملے کو سلجھانے کے لئے کشیدگی سے ہٹ کر کوششیں کی جانی چاہئے تھیں جو بدقسمتی سے نہیں کی گئیں اور دنیا بھر میں پاکستان کی صورت حال کے حوالے سے ایک منفی تصویر پیش کی جاتی رہی۔ عمران خان گرفتار ہو جائیں یا باہر رہیں۔یہ حقیقت ہے کہ سیاسی انتشار موجود رہے گا۔اس انتشار کو ختم کرنے کے لئے مثبت کوششیں کی جانی چاہئیں جن کا فی الوقت شدید فقدان نظر آتا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ پنجاب پولیس نے عمران خان کی گرفتاری کے لئے عدالت کی دی گئی تاریخ سے چار دن پہلے یہ آپریشن کیوں شروع کیا، جبکہ یہ بھی سب کو معلوم تھا کہ لاہور میں پی ایس ایل کے فائنل مقابلے بھی ہونے والے ہیں اور شہر کسی انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ایک بار پھر عمران خان سے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کرا کے مقررہ تاریخ پر ان کی حاضری کا انتظار کیا جاتا۔ عمران خان خود کہتے رہے کہ انہوں نے لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر کو بیانِ حلفی کے ساتھ اپنا ضامن مقرر کیا تھا کہ وہ پولیس کو یقین دہانی کرا دیں،کئی دوسرے راستے بھی نکالے جا سکتے تھے جن کے ذریعے اس صورت حال سے بچا جا سکتا ہے جس نے لاہور کی زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔سیاسی سرگرمیوں کے لئے ضروری ہے کہ حالات پرامن ہوں مگر یہاں تو ہر کوئی جلتی پر تیل ڈال رہا ہے۔کشیدگی میں اضافہ کرنے والے اقدامات اور بیانات کے ذریعے حالات خراب کئے جا رہے ہیں۔ مریم نواز نے علیحدہ ہی راہ نکال رکھی ہے،وہ اپنے ہر جلسے میں ساری توجہ عمران خان پر تنقید کرنے میں صرف کرتی ہیں،ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ الیکشن سے پہلے مساوی ماحول فراہم کیا جائے اور اس کی وضاحت وہ یوں کرتی ہیں کہ جب تک نواز شریف کی سزا ختم نہیں کی جاتی اور عمران خان کو ان کے جرائم کی سزا نہیں دی جاتی اس وقت تک انتخابات نہیں ہونے دیں گے،اب یہ ایسی شرط ہے جو پی ٹی آئی کے کیمپ میں آگ لگا دیتی ہے۔ ایسی شرائط عائد کرنے کا اختیار مریم نواز کو کس نے دیا ہے، نواز شریف سپریم کورٹ سے نااہل ہوئے ہیں،سزا بھی انہیں عدلیہ نے دی ہے، کوئی اسے کیسے ختم کر سکتا ہے،اب یہ بھی کہا جا رہا ہے اور اس میں تحریک انصاف کے رہنما پیش پیش ہیں کہ عمران خان کو گرفتار کرنے کی خواہش مریم نواز کی ہے جس کے لئے پوری ریاستی مشینری کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ مریم نواز نے انتخابات کے لئے جو شرط رکھی ہے وہ قابلِ عمل نہیں تاہم یہ ناقابل ِ عمل شرط رکھی ہی اس لئے گئی ہے کہ نہ پوری ہو گی اور نہ ہی انتخابات ہوں گے،بظاہر تو یہی لگ رہا ہے کہ موجودہ حالات میں تمام سیاسی قوتیں اور اسٹیبلشمنٹ ایک طرف ہے اور عمران خان کی سیاسی جماعت دوسری طرف کھڑی ہے۔الیکشن کمیشن کے ساتھ میٹنگ میں جس طرح پولیس، انتظامیہ اور محکمہ دفاع نے پنجاب میں انتخابات کے لئے سکیورٹی اور نفری نہ دینے کا دو ٹوک کہہ دیا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے۔ملک میں سیاسی کشیدگی، انتظار اور بے یقینی کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی مسئلہ ہے۔ کیا عمران خان کی گرفتاری سے یہ معاملہ دب جائے گا؟ کیا حالات نارمل ہو جائیں گے؟ موجودہ فضا میں یہ سوچنا بھی حماقت نظر آتی ہے۔زمان پارک میں عمران خان کی گرفتاری روکنے کے لیے تحریک انصاف کے کارکنوں نے جو مزاحمت کی،اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کس قدر سخت جان ہو چکے ہیں، ایسے کارکنوں کی موجودگی میں تحریک انصاف کو کیسے دیوار سے لگایا جا سکتا ہے۔مجھے عمران خان کی یہ بات سن کر خاصی تشویش ہوئی کہ اگر مجھے منظر سے ہٹایا گیا تو یہ کارکن ہمارے کنٹرول میں نہیں رہیں گے،جو دِل میں آئے گا کریں گے، سیاسی قیادت کا منظر پر رہنا ضروری ہے۔ کم از کم بات کرنے کی گنجائش تو رہتی ہے اگر اسے ہی منظر سے ہٹا دیا جائے تو کسی بھی صورتِ حال کو کنٹرول کرنے میں خاصی مشکل پیش آتی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں ایسے فاصلے ہیں جیسے دو بڑے دشمنوں کے درمیان ہوتے ہیں،حالانکہ اپوزیشن اور حکومت جمہوریت کے دو  پہیئے ہیں جن پر وہ آگے بڑھتی ہے۔جب عمران خان اقتدار میں تھے تو انہوں نے اپوزیشن سے بات  نہ کرنے کی قسم کھا رکھی تھی،اب شہباز شریف وزیراعظم ہیں تو بجائے مفاہمت کے گرفتاری کے راستے پر چل نکلے ہیں۔عمران خان اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا مسلسل یہ کہنا ہے کہ انہیں یہ خطرہ ہے کہ عمران خان کی جان کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ پے در پے مقدمات کی وجہ سے بھی اس شبے کو تقویت ملتی ہے کہ حکومت عمران خان کو انتقام کا نشانہ بنانا چاہتی  ہے۔وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ جنہیں ماحول کو ٹھنڈا کرنے میں کردار کرنا چاہئے عمران خان کو دھمکی آمیز بیانات کے ذریعے اپنے تئیں ڈراتے رہتے ہیں،یہ سیاست آخر کس طرف کو چل نکلی ہے ایک ایسی بے یقینی اور بے چینی نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس میں ہر نئے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔کیا پاکستان کو تادیر اس صورت حال میں مبتلا رکھا جا سکتا ہے؟ کیا ہم ایک لامتناہی انتشار کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ کون ہے جو اس کا جواب دے گا، یہاں تو دور دور تک کوئی اِس بارے میں سوچنے کو بھی تیار نہیں۔