
منی بجٹ،قیمتوں میں مزید اضافے سے گریز کیا جائے
ملک کی معاشی حالت آخر کب سدھرے گی یہ سوال آج کل ہر طرف سے پوچھا جارہا ہے لیکن کسی طرف سے اس کا جواب آرہا ہے اور نہ ہی عوام کو مطمئن کیا جارہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے ، ملک کی معاشی صورت حال کے حوالے سے گذشتہ ستر سال سے یہی کہا جارہا ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال انتہائی نازک ہے،ملک نازک صورت حال سے گزر رہا ہے،حیرت ہے پچھلے75 سال سے نازک صورت حال ہی ختم نہیں ہو رہی ہے جو بھی حکمرانی کے لیے آتا ہے اس کی حالت نازک نہیں رہتی اوروہ تو خوب پھلتا پھولتا ہے بلکہ وہ تو آنے والی اپنی سات نسلوں تک کو سنوار لیتا ہے مگر ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں؟سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاسی جماعت کوئی بھی ہو آپ احتساب کے لیے کسی پر بھی ہاتھ ڈالیں گے تو شور،احتجاج،جمہوریت خطرے میں،ملک کا دیوالیہ ہو گیا جیسے الفاظ کہہ کرجان چھڑا لی جاتی ہے، باتیں تو سب کرتے ہیں مغرب کیوہاں جا کر خود لائینوں میں بھی لگ جاتے ہیں مگر یہاں عوام کو آٹے کے لیے لائینوں میں کھڑا کرتے ہیںپی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو اس نے بھی کوئی تیر نہیں مارا مگر کاموں کو مزید بگاڑ کر رکھ دیاپی ٹی آئی کے ایسے کئی ایم پی اے اور ایم این ایز جن کی حالت الیکشن لڑنے والی بھی نہیں تھی مگر آج وہ بڑی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیںان کا احتساب کون کرے گا؟یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ نوجوانوں کے لیے قرضے کی سکیم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کو وسائل اورحالات مہیا کیے جائیں تو وہ پاکستان کو اقوام عالم میں کھویا ہوا مقام دلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔بے شک نوجوانوں کی آبادی پاکستان کے لئے قیمتی سرمایہ ہے۔ کیا ہم ان کی بات پر اعتبار کر سکتے ہیں؟یہ بات اِس لئے کہی جا رہی ہے کہ اِس سے پہلے بھی بہت سی سکیمیں نکلتی رہی ہیں،جب بھی آئی ایم ایف سے قرض لیا گیا نئی سے نئی سکیم کو بھی ساتھ متعارف کروایا گیا مگر سب بے سود رہااس سے پہلے پی ٹی آئی نے اپنے دور اقتدار میں کامیاب نوجوان سکیم کو متعارف کروایا جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں کہ کتنے لوگ اِس سے مستفید ہوئے ؟یہ پروگرام تو ان سیاستدانوں کے ارد گرد خوشامدی،اشرافیہ،ہی کے مستفید ہونے کے لئے ہوتے ہیں کیونکہ ہمیشہ سے یہ سیاست کی نذر ہی ہو جاتے ہیںبے چارے عوام کو تو آٹا بھی کنٹرول ریٹ پر لینے کے لئے لائنوں میں لگنا پڑتا ہے، وہ اِن سکیموں سے کیسے مستفید ہوں گے؟اِس سے پہلے لیپ ٹاپ سکیم،یلو کیپ سکیم،سستی روٹی سکیم،بے نظیر انکم سپورٹ، احساس پروگرام اگر آج بھی ان سکیموں کا آڈٹ کروایا جائے تو بڑے پیمانے پر کرپشن نظر آئے گی۔اب آئی ایم ایف شرائط مان کر مِنی بجٹ کی تیاری کی جا رہی ہے جس میں گیس مہنگی،بجلی پر سبسڈی ختم،پٹرول پر لیوی ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ،ان تمام اہداف کو پورا کرنے کے لئے آئی ایم ایف کو مکمل یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ لوگ تین وقت ناشتہ اور دو وقت کے کھانے سے اب صرف دو وقت کے کھانے تک محدود ہوکر رہ گئے ہیںیا تو انہیں ناشتہ چھوڑنا پڑا یا پھر وہ ایک وقت کا کھانا چھور چکے ہیں کیونکہ صرف پٹرول پر ہی لیوی ٹیکس کو بڑھا دیا جائے تو تمام اشیائے خورونوش میں خودبخود اضافہ ہو جاتا ہے اب پھر پٹرول پر ہی لیوی ٹیکس کو بڑھایا جارہا ہے جس سے روزمرہ اشیاء کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی اور یہ قیمتیں دوگنا تک پہنچ جائیں گی عوام کی قوت خرید جو پہلے ہی ختم ہوچکی ہے قیمتوں کے مزید اضافے سے ایک نیا طوفان آجائے گا۔اِن اشیا ء کی قیمتوں میں اضافے سے عوام جب بنیادی ضروریات ہی پوری نہ کر سکے تو یقینا سٹریٹ کرائم،چوری،اور ڈکیتیوں میں اضافہ ہو گا اور ایسا دیکھنے اور سننے میں آبھی رہا ہے اگر ہم جان بوجھ کر اس سے آنکھیں چرائیں تو وہ الگ بات ہے منی بجٹ کا مسودہ حتمی مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔منی بجٹ میں بجلی ساڑھے سات روپے مزید مہنگی،گیس کی قیمتوں میں 74فیصد اضافے کی تجویز،میٹھے مشروبات اور سگریٹوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے کی تجویز، لگژری اشیا پر اضافی ڈیوٹی عائد کرنے،اور 70ارب روپے کے لگ بھگ اشیا پر دی جانے والی ٹیکس چھوٹ ختم کی جائیں گی اس کے علاوہ جوتوں کی صنعت الگ سے ڈسٹرب ہے کیونکہ را میٹریل،جوتوں میں استعمال ہونے والے کیمیکل کے ریٹس بھی آسمان سے باتیں کر رہے ہیں جس سے جوتوں کی قیمتوں میں بھی ہو شوربا اضافہ ہونے کا اندیشہ ہے۔اس صنعت پر بھی بروقت توجہ کی ضرورت ہے۔اگر ایک ایک کرکے یونہی مسائل جنم لیتے رہے تو مستقبل قریب میں ڈر ہے کہ پاکستان کی پراڈکٹ کی پرائز کنٹرول سے باہر ہونے کی وجہ سے کوئی ہماری پراڈکٹ کو پوچھے گا بھی نہیں ہماری ایکسپورٹ مزید خطرے میں آسکتی ہے۔اِس سے پہلے عمران خان کو نوجوانوں کی بہت فکر تھی، انہوں نے ذمہ داری کیسے نبھائی، وہ آپ سب لوگ جانتے ہیں اور اب شہباز شریف بھی نوجوانوں کے لئے بہت فکر مند دکھائی دے رہے ہیں۔پاکستان کی تقریبا پنسٹھ فیصد آبادتیس سال سے کم عمر ہے جبکہ29فیصد آبادی پندرہ سے 29 سال کے درمیان ہے۔یو این ڈی پی کے مطابق آبادی میں نوجوانوں کا تناسب اِس وقت بلند ترین سطح پر ہے۔ 2050ء تک ملکی آبادی میں نوجوانوں کا تناسب اِسی طرح برقرار ہے گا۔آبادی کے تناسب کے لحاظ سے نوجوانوں کے لئے جو ملک و قوم کی ترقی کا اہم حصہ ہیں ان کے لئے اہم پلان اور حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔اس وقت جو صورت حال ہے،اس میں ہمارے نوجوانوں کے لیے بہتر تعلیم و تربیت کا فقدان بھی دکھائی دیتا ہے۔ہمارا نوجوان اِس گلوبل ولیج میں مسابقت کے ہاتھوں مار کھا رہا ہے۔اس کے مقابلے میں خطے کے دیگر ممالک، مثال کے طور پر انڈیا اپنے نوجوانوں کو بہتر تعلیم و تربیت کے مواقع فراہم کر رہا ہے۔اِس وقت ہم ترقی یافتہ ممالک کی بات کرنے کی بجائے صرف بھارت ہی کی بات کریں تو بھارت پچھلے چار سال میں بہت سے ایسے اقدامات،اور دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرکے خود کو بہتری کی طرف لے گیا ہے۔بھارت نے دبئی،سعودی عرب،ایران، اور مسلم ممالک کے ساتھ نہ صرف تعلقات بہتر کیے بلکہ اپنے ملک میں انویسٹمنٹ بھی کروائی۔ آج بھارت آئی ٹی میں بھی ہم سے بہت آگے ہے، مہنگائی بھی کنٹرول ہے اور ترقیاتی کاموں پر دھیان اور چھوٹے بڑے بے شمار ڈیم بھی بنائے جارہے ہیں، آج اگر کہا جائے کہ انڈیا ہم سے معاشی لحاظ سے بہتر ہے تو یہ غلط نہیں ہو گا۔ آج انڈیا پاکستان کی حالت کو دیکھ کے لطف اندوز ہو رہا ہے،اب بھی اگر ہوش کے ناخن نہ لیے گئے اور یونہی جمہوریت، جمہوریت کھیلتے رہے تو مستقبل قریب میں حالت مزید بھیانک ہو سکتی ہے۔