
عالمی یوم خواتین،اپنی اداوں پر غور کا دن
روخان یوسف زئی
ہاں آج پھر حسب روایت سرکاری اور غیرسرکاری طور پر ''یوم خواتین'' منایا جائے گا۔بڑے بڑے علیشان ہوٹلوں اور دیگر مقامات پر سیمنارز اورورکشاپس منعقد ہوئے ہوں گے۔خواتین کے حقوق اور ان کے ساتھ غیرمساوی امتیازی سلوک کے خلاف لمبی لمبی تقریریں کی جائیں گی۔تحقیقی مقالے پڑھے جائیں گے۔واک کیے جائیں گے۔جو کہ ایک اچھا اور قابل ستائش اقدام ہے۔مگر دوسری جانب جب ہم اپنے ملک اور معاشرے میں خواتین کی حالت پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسی کوئی قابل ذکر اور قابل تعریف بات نظر نہیں آتی جس کا دن منایا جائے۔
8 مارچ کا دن دنیا بھر میں عالمی یوم خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے،تاکہ سماج میں موجود جنسی امتیاز اور خواتین کے ساتھ ہونے والے ظالمانہ اور ناروا سلوک میں کمی یا اس پر قابو پایا جائے۔پوری دنیا میں ایک ہی دن عالمی یوم خواتین منانے کا بنیادی خیال 1910ء میں Clara Zetkin نے دیا تھا۔انہوں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ خواتین کے حقوق اور ان کے مطالبات کو لے کر ہر ملک کو سال میں ایک بار،ایک مخصوص دن وومن ڈے کے طور پر منانا چاہیے۔17 ممالک کی 100 سے زیادہ خواتین نے ان کے اس مشورے سے اتفاق کیا تھا۔
عالمی یوم خواتین کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو19 مارچ1911ء میں پہلا انٹرنیشنل وومنیس ڈے آسٹریا،ڈنمارک،جرمنی اور سوئزر لینڈ میں مشترکہ طور پرمنایا گیا۔دو سال بعد 1913ء میں 8 مارچ کا دن بین الاقوامی یوم خواتین کے لیے طے کیا گیا۔اس میں 1908ء کے اس واقعے کا اہم رول ہے جب تقریباً15000عورتیں ووٹ کے حق ،جائزسیلری اور کام کرنے کے اوقات کوکم کرنے کے مطالبے کے ساتھ نیو یارک کی سڑکوں پراتری تھیں۔
اس واقعے کے تقریباً ایک سال بعد 28 فروری1909کو امریکہ نے سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ کے تعاون سے اپنا پہلا نیشنل وومینس ڈے منایا۔ انٹرنیشنل وومینس ایئر 1975کے دوران یونائٹیڈ نیشنس نے 8 مارچ کوبین الاقوامی یوم خواتین کے طور پر منانا شروع کیا۔
بنیادی طورپراس دن مختلف قسم کے پروگرامز پوری دنیا میں کیے جاتے ہیں۔یہ پروگرامز جنسی امتیاز ات اور خواتین کیساتھ ہونے والے ناروا سلوک کے متعلق لوگوں میں شعور اور بیداری پیدا کرنے کی ایک کوشش ہوتی ہے۔یہ ایک طرح کی تحریک اور رجحان ہے کہ لوگ اس بارے میں سوچیں ، عملی قدم اٹھائیں۔یہ دن دنیا بھر میں اس لیے منایا جاتا ہے کہ جنسی مساوات قائم کیا جاسکے یعنی وہ تمام حقوق جو مردوں کو بہ آسانی حاصل ہیں عورت کو بھی دلائے جا سکیں۔
اس ضمن میں چند سال قبل شروع ہونے والی ''می ٹو موومنٹ'' کا ذکر بھی ضروری ہے جس کے تحت دنیا بھر کی عورتوں نے اپنے ساتھ ہونے والے جنسی استحصال اور جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات شیئرکیے تھے۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں آج بھی ریپ، جہیز،جنسی ہراسیگی،جائیداد میں حق تلفی جیسے مسائل سے خواتین کی اکثریت دوچار ہے۔اس دن کو منانا اپنی جگہ ایک اچھی روایت اور قابل ستائش بات ہے۔لیکن بنیادی سوال پھر بھی یہی اٹھتا ہے کہ عملی طور پر ہمارے ملک اور معاشرے میںان بنیادی مسائل سے خواتین کو کتنی نجات یا ان میں کمی لانے کے لیے ہم نے کیا کیا عملی اقدام اٹھائیں ہیں یا اس بارے میں حکومتی سطح پر کیا لائحہ عمل ترتیب دیا ہے جس سے خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی ہوسکے۔بات جنسی تناسب کی ہو یا عورتوں کی تعلیم کی ہر جگہ جنسی امتیاز کی صورت دیکھنے کو ملتی ہے۔
ہمارے سماج میں موجود پدری اصولوں کی وجہ سے آج بھی لڑکیاں گھروں میں بند رکھی جاتی ہیں۔ تعلیم کی بات کریں تو آج بھی 60 فی صد لڑکیاں اسکول میں داخلے کے بجائے گھر کے کاموں تک محدود رکھی جاتی ہیں۔غربت،مہنگائی اور معاشرتی جبر یا فرسودہ روایات کے باعث آج بھی ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم اور ملازمت ایک بڑا طعنہ اور معیوب عمل سمجھا جاتا ہے۔
اس کے بدلے دینی تعلیم کے لیے بے شمار مدارس قائم ہیں۔یہ بھی اچھی بات ہے کہ لڑکیاں دینی تعلیم حاصل کریں مگر اس کے ساتھ دنیاوی تعلیم بھی از حد ضروری ہے۔یعنی علم ہر مرد اور عورت پر اتنا فرض کیا گیا ہے کہ وہ اس کی روشنی میں اپنی زندگی گزار سکے۔اور علم میں دنیاوی علم بھی شامل ہے۔
یہ قابل تعریف بات ہے کہ ہمارے ملک میں بھی 8 مارچ کو عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے۔مختلف قسم کے پروگرام کیے جاتے ہیں۔ ریلیاں نکالی جاتی ہیں ، ٹی وی شوزکیے جاتے ہیں۔ لیکن زمینی حقائق کو دیکھتے ہیں تو الٹی گنگا نظر آتی ہے۔اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے یہ دن خواتین کے لیے مسلسل اندھیرے رکھنے کے لیے صرف ایک دن اجالے کا دن ہے۔اس کے بعد پھر''وہی حالات ہیں فقیروں کے''۔
آئینی اور قانونی طور پرخواتین کے جملہ حقوق کی بات کریں تو پھر اس قسم کا بل پارلیمنٹ میں دب جاتا ہے۔
آج بھی ورکنگ وومن کو ملنے والا معاوضہ مردوں سے بہت کم ملتاہے۔دفاتر میں ان کے ساتھ جو سلوک اور برتاو کیا جاتا ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔بسوں اور دیگر ٹرانسپورٹ اور بازاروں میں خواتین کے بارے میں ہمارا رویہ اور ہماری نظریں کیا ہیں؟ اس کا اعتراف بھی ہمیں آج کے دن کرنا چاہیئے اور اس سلوک سے چھٹکارا پانے کا عہد بھی ہمیں کرنا چاہیئے۔صرف باتوں اور تقریروں سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔