
پی ٹی آئی صوابی میں اختلافات، سینئر رہنما اور کارکن آمنے سامنے
پاکستان تحریک انصاف ضلع صوابی میں شدید اختلافات سامنے آ گئے، متعدد پارٹی رہنماں اور کارکنوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ چند رہنماں کے مسلط کردہ فیصلے اور ڈکٹیشن کی پالیسیاں انہیں قبول نہیں، کارکنوں کو پالیسیوں کا حصہ بنایا جائے۔
پارٹی ذرائع نے اتوار کو بتایا کہ کارکنوں نے تحصیل ٹوپی کے علاقوں میں مختلف اجلاسوں میں بتایا کہ گزشتہ نو سال میں سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پارٹی کی پالیسیوں پر حاوی رہے اور شہرام خان ترکئی کے بعد سے سابق صوبائی وزیر تعلیم و صحت نے پارٹی میں شمولیت اختیار کی تو انہوں نے بھی کارکنوں کو اہمیت نہیں دی جس سے کارکنوں میں احساس محرومی پیدا ہوا۔
ذرائع کے مطابق تین روز قبل اسد قیصر نے اسلام آباد میں اپنے اہم حامیوں سے ملاقات کی تھی، جس کا مقصد تھا کہ انکی مخالفت کرنیوالے رہنماں اور کارکنوں کا کیسے مقابلہ کیا جائے اور وہ کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہیں۔
کارکنوں نے بھرپور طاقت کے ساتھ ہیوی ویٹ کیخلاف مزاحمت کرنے کا عزم کیا اور ان کا مقصد یہ ہے کہ اگلے عام انتخابات کیلئے امیدواروں کو اتفاق رائے سے نامزد کیا جائیگا کیونکہ اسد قیصر نے ہر بار دو حلقوں سے 2013 اور 2018 کا الیکشن لڑا تھا اور بعد میں ان کے بھائی عاقب اللہ نے دو بار الیکشن لڑا تھا۔
انہوں نے نشستیں خالی کیں اور پہلے ایم این اے اور بعد میں ایم پی اے منتخب ہوئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اسد قیصر سے نہیں وہ کارکنوں کو مناسب وزن دیں۔
اسی طرح شہرام اور ان کے چچا محمد علی ترکئی دو بار منتخب ہوئے اور پارٹی کی جانب سے انہیں ٹکٹ دیا گیا،
ذرائع نے مزید کہا کہ اب اسد قیصر اور شہرام کے اہل خانہ کی نظریں اگلے عام انتخابات کے ٹکٹوں پر مرکوز ہیں لیکن اب کسی اور کو بھی موقع ملنا چاہیئے۔
سابق ضلعی ڈپٹی جنرل محمد خطاب نے کہا کہ انہوں نے مختلف جرگہ میٹنگز کیں، چاہتے تھے کہ اگلے عام انتخابات کیلئے کارکنوں کے اتفاق رائے سے امیدواروں کو ٹکٹ دیا جائے، اگر انہیں نظر انداز کیا گیا تو وہ اپنے لیڈروں کو نظر انداز کر دیں گے اور ان کا اپنا ہی امیدوار ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم پارٹی رہنماں بشمول ہیوی ویٹ کا احترام کرتے ہیں لیکن انہیں کارکنوں پر فیصلے مسلط کرنے کے سابقہ ہتھکنڈوں کو ترک کرنا چاہیے۔