پولیس کی پکار 

پولیس کی پکار 

شمیم شاہد
جس ریاست کی پولیس کمزور ہو وہاں پر ہمیشہ فوج یا زبردستی مسلط ہونے والے آمروں اور ڈکٹیٹروں کی حکمرانی ہوتی ہے ، کچھ اس قسم کی صورتحال پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا کی بھی ہے ۔ پر اسرار طور پر مذہبی انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کے شکارصوبے خیبر پختونخوا میں عرصہ دراز سے پولیس فورس کے افسران اور جوان دہشتگردی کا شکار ہیں، گھات لگا کرقتل کی وارداتوں میں پولیس فورسز کے افسران اور جوانوں کو چن چن کر قتل کیا جا رہا ہے اور حکومتی عہدیدار سب کچھ جاننے کے باوجود اسے دہشت گردی کا واقع قرار دیکر ایف آئی آر داخل دفتر کر دیتے ہیں۔ ویسے تو گھات لگا کر قتل کی پہلے واردات میں بنوں کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس عابد علی کو نشانہ بنایا گیا تھا مگر بعد میں 27 جنوری 2007 کو سانحہ ڈھکی نعلبندی جس میں ملک سعد اور خان رازق سمیت درجنوں افراد شہید ہوئے تھے نے ریاست کے ہر فرد کو آبدیدہ کر دیا تھا ۔ ویسے پولیس شہدا کی فہرست اب بہت طویل ہو گئی ہے جسکو اخبار کے چند فقروں یا جملوں میں بیان کرنا ممکن نہیں مگر 30 جنوری 2023 کو جو واقع پشاور پولیس لائنز کے دفتر میں پیش آیا عالمی سطح پر پولیس کی تاریخ میں اسکی مثال نہیں مل سکتی ایک ہی خودکش نے ایک دھماکے میں 102 افراد کو شہید اور 221 سے زیادہ کو زخمی کر دیا ہے ۔ یوں سمجھئے کہ ایک ہی سیکنڈ میں ایک بدبخت دہشت گرد نے تین سو گھرانوں کو لہولہان کر دیا اس واقع میں پولیس اہلکاروں کے علاوہ جامع مسجد کا خطیب بھی جان سے ہاتھ دہو بیٹھے ہیں مگر بدقسمتی سے خیبر پختونخوا کے لاکھوں علما کرام میں سے صرف چند ایک نے صحیح طور پر اس واقع کی مذمت کی ہوگی جبکہ باقی نے مجرمانہ طور پر خاموشی پر ہی اکتفا کیا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روایتی طور پر مذمت کرنے یا اس واقع میں متاثرہ افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی میں تمام سیاسی جماعتیں بھی پیش پیش رہی ہیں مگر اس قسم کے واقعات کے اصل محرکات یا عسکریت پسند تنظیموں کی سرپرستی اور مالی معاونت فراہم کرنے والوں کے ناموں کو زبان پر لانے والوں کی تعداد بھی نہایت کم ہے ۔ حتی کہ وزیراعظم شہباز شریف اور انکی مخلوط حکومت میں شامل اتحادیوں نے یہ کہہ کر کہ عسکریت پسند سرحد پار افغانستان سے داخل ہوئے معاملہ در اصل رفع دفع کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان کے ساتھ متنازعہ ڈیورنڈ لائن پر خاردار تار لگوا دی گئی  ہے ۔ افغانستان کے ساتھ بہت سی سرحدی گزرگاہیں بند ہیں اور جو کھلے ہیں اس کی مثال بھی امریکہ اور میکسیکو کے سرحدی گزرگاہوں سے بہت سخت ہیں۔ اسی بنیاد پر اب کئی ایک سیاسی تنظیموں اور گروہوں کے کارکنوں کے بعد اب پولیس اہلکاروں نے اپنی جان و مال کے تحفظ کے لئے حکومت پر دباؤ بڑہانے کے لئے مظاھرہ کرتے ہوئے یہ نعرہ لگایا کہ یہ جو نامعلوم ہے وہ ہمیں معلوم ہے۔یہ کوئی چھوٹا موٹا نعرہ نہیں ہے بلکہ اس نعرے کے پیچھے بہت سے محرکات پوشیدہ ہیں ۔ یہ نعرہ اب پاکستان پر عالمی سطح پر مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے لگنے والے الزامات کے ساتھ ساتھ زیر بحث لایا جاتا ہے ۔ اس نعرے کے جلسوں اور جلوسوں میں لگانے سے اب عام لوگ بھی ریاستی اداروں سے متنفر ہو رہے ہیں۔ اب ذمہ داری کسی اور کی نہیں بلکہ مقننہ اور عدلیہ جیسے ریاستی اداروں پر عائد ہوتی ہے کہ اپنے گریبان میں جانکھیں اور عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے سبب بنے والی وجوہات کو تلاش کرکے اسکا فوری حل تلاش کریں بصورت دیگر پولیس مظاہرین کے نعرے کسی بھی وقت مملکت عزیز کو انتہائی مشکل حالات سے دو چار کر سکتے ہیں ۔