اے این پی کا دہشتگردوں کو ری سیٹل کرنے کے عمل کا جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ

اے این پی کا دہشتگردوں کو ری سیٹل کرنے کے عمل کا جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ

عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ جنرل فیض اور اسکے مہروں نے پختون قوم کو ایک دفعہ پھر بارود کے ڈھیر پر بٹھا دیاہے۔عمران اور اس کی ٹیم کے خلاف بہت جلد سپریم کورٹ میں درخواست دائر کررہے ہیں ۔ اے این پی دہشتگردوں کو دوبارہ لانے کے اس عمل کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کرتی ہے۔

 

باچا خان مرکز پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایمل ولی خان نے کہا کہ اے این پی 4 فروری کے پشاور امن مارچ میں بھرپور شرکت کرے گی۔ ہر مکتبہ فکر کے لوگوں امن کے جھنڈوں کے ساتھ امن مارچ میں شرکت یقینی بنائے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے گناہنگار وہ سب ہیں جو ستر سالوں سے اس فساد کو جہاد کا نام دے رہے ہیں۔ ذمہ دار وہ بھی ہیں جنہوں نے افغانستان کی خودمختاری کے سودے پر پاکستان میں خوشیاں منائی۔

 

 ذمہ داران وہ بھی ہیں جو حق اور باطل کی اس لڑائی میں خاموش تماشائی ہیں۔ اس لڑائی کو مذہب کی شکل دی گئی علما کرام سے بھی گزارش ہے کہ اسکے خلاف آواز اٹھائے۔علما کرام وضاحت کریں کہ مرنے والے شہید ہیں کہ مارنے والے۔پوری قوم جاننا چاہتی ہے کہ ہمیں کون اور کیوں ماررہے ہیں۔

 

وزیراعظم، چیف جسٹس اور آرمی چیف پختون قوم کو اسکی وضاحت کرے۔ ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ 2008 میں ہماری حکومت آنے سے قبل کئی اضلاع میں پاکستان کے جھنڈے اتار کر طالبان کے جھنڈے لگائے گئے تھے۔ 

 

ہم نے جانوں کے نذرانے دیکر پاکستان کا جھنڈا بلند کیا۔ اس کے بعد حکومت جن لوگوں کے سپرد کئی گئی ان کو لانے میں ٹی ٹی پی کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔

 

2013 میں طالبان سربراہ نے باقاعدہ اعلان کیا کہ ہمیں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف قابل قبول ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ دہشتگردوں کو دفاتر دینے کے ساتھ ساتھ انکو ری سیٹل کرنے کی بات کس نے کی۔ جس نے طالبان کو دوبارہ مسلط کیا وہ کہہ رہے ہیں کہ دو تہائی اکثریت سے دوبارہ آئیں گے۔

 

 موجودہ حالات کے ذمہ دارعمران خان، عارف علوی، محمود خان اور بیرسٹر سیف ہیں۔ پی ٹی آئی دورحکومت میں بیرسٹر سیف حکومت کی ترجمان کم اور طالبان کی زیادہ کرتا رہا ۔قوم کے مجرم وہ ہیں جنہوں نے ان دہشتگردوں کو قبائلی اضلاع اور دیگر علاقوں میں دوبارہ آباد کیا۔

 

 صدر عارف علوی نے 102 انتہائی مطلوب دہشتگردوں کو دوبارہ سے اپنی کارروائیاں کرنے کیلئے رہا کیا۔


 ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر پختون کی زبان پر یہ سوال ہے کہ ہماری بدقسمتی کی وجہ کیا ہے۔ پشتون سوال کررہے ہیں کہ کیا ہم مسلمان نہیں؟ 21ویں صدی میں اگر کہیں ایسا واقعہ ہو تو پورا ملک کانپ اٹھتا ہے۔ہم جنازے اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں۔

 

 کل چارسدہ میں 18 شہدا کے گھروں میں 18 کہانیاں سنی۔ کل ان 18 اجڑے ہوئیگھروں میں یہ سوال اٹھا ہے کہ ہم ہی کیوں؟کل مجھے سے یہ سوالات بھی کئے گئے کہ پنجاب میں یہ سب کچھ کیوں نہیں ہوتا؟ 

 

ایمل ولی خان نے مزید کہا کہ بدقسمتی سییہاں ایسے واقعات پر بھی سیاست کی جارہی ہے۔ ہم نے کبھی انتخابات ملتوی کرنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ کیا کوئی اتنا بھی بے حس ہوسکتا ہے کہ محض انتخابات ملتوی کرنے کیلئے اپنی قوم کے ساتھ اتنا گھٹیا سودا کریں گے۔ ہم نے تو تب بھی انتخابات ملتوی کرنے کا مطالبہ نہیں کیا تھا جب ہارون بلور شہید کردیئے گئے تھے۔

 

انہوں نے کہا کہ سو سے زائد گھروں میں ماتم ہے لیکن یہاں ڈرامے ہورہے ہیں۔ افسران بات کرلیتے ہیں لیکن پھر تردید آجاتی ہے۔کل آئی جی نے کہا یہ ایک دن کا کام نہیں، سی سی پی او نے سرکاری گاڑی کا ذکر کیالیکن ابھی آئی جی صاحب وضاحت کررہے ہیں کہ یہ خودکش حملہ تھا۔جو بیانات آرہے تھے اس سے تاثر یہی مل رہا تھا کہ اصل بات کچھ اور ہے۔

 

 ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان بھی پہلے اس حملے کی ذمہ داری قبول کررہے تھے لیکن جب ان پر دبا آیا تو انہوں بیان بدل دیا۔طالبان اگر اب یہ کہتے ہیں کہ وہ مساجد کو نشانہ نہیں بناتے تو جھوٹ بول رہے ہیں۔ماضی میں بھی طالبان نے مساجد کو نشانہ بنایا ہے۔بتایا جائے نماز پر کھڑے جوانوں کو شہید کرنا کون سا اسلام اور مذہب ہے؟


 ایمل ولی خان نے مزید کہا کہ پولیس سے اظہار یکجہتی کیلئے جو بھی کریں وہ کم ہیں۔منفی پراپیگنڈوں میں کسی قسم کا حصہ نہیں لیں گے۔ پختونخوا پولیس ہمارا فخر اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ پولیس لائنز حملہ ہماری ریڑھ کی ہڈی پر حملہ ہے۔ پولیس ہیڈ کوارٹر کو نشانہ بنانا خوف کی فضا قائم کرنی ہے۔ 

 

پختونخوا پولیس اکیلی نہیں اور نہ انکوکبھی اکیلا چھوڑیں گے۔ باور کراتے ہیں کہ پختونخوا پولیس ہماری محافظ ہے اور ہم انکے محافظ بنیں گے۔ پختونخوا پولیس قوم کی اسی طرح حفاظت کرے گی جسطرح انہوں نے ماضی میں کیا ہے۔


 ایمل ولی خان نے کہا کہ وضاحت کی جائیکہ پچھلے دس سال میں وار آن ٹیرر کے خلاف جو بجٹ آیا وہ کہاں استعمال ہوا۔ ہماری حکومت کے بعد صوبے میں پولیس کیلئے کچھ نہیں کیا گیا۔پی ٹی آئی نے دس سالوں میں پولیس کو کمزور اور دہشت گردوں کو مضبوط کیا ہے۔ عمران کی حکومت میں وزیر اعلی سے آئینی اختیارات لے کر آئی جی کو دیئے گئے۔ 

 

مطالبہ کرتے ہیں کہ اس غیر آئینی اقدام کا نوٹس لیا جائے اور اختیارات واپس وزیراعلی کو دیئے جائیں اور پولیس کی صلاحیت بڑھانے کیلئے انکے فنڈز میں اضافہ کیا جائے۔


 پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایمل ولی خان نے کہا کہ ہمیں قوم کی سلامتی، امن اور خودمختاری سب سے زیادہ عزیز ہے۔ ہم امن کیلئے اور دہشتگردی کے خلاف متحد ہیں۔ قوم وضاحت بھی چاہتی ہے اور بارود کے اس کھیل کا خاتمہ بھی۔ اگر نہیں تو پوری قوم ان حالات میں بغاوت کرنے کیلئے تیار ہے۔

 

 ایمل ولی خان نے مزید کہا کہ جو لوگ دوتہائی کی بات کررہے ہیں وہ آج غائب ہیں۔ ان لوگوں کو پختونوں کے 102 شہدا کی بجائے شیخ رشید اور فواد چودھری کی گرفتاری اور رہائی کی فکر ہے۔یہاں ہم تابوت اٹھا رہے تھے اور وہاں ناچ گانے کی محفلیں جاری تھی۔ قوم سمجھ چکی ہے کہ دس سالوں میں انہوں نے محض ڈرامے کئے ہیں۔ پختونخوا کو نیازی کے اے ٹی ایم کے طور پر استعمال کیا گیا۔


 انہوں نے کہا کہ 6 فروری کو پشتون قومی اتحاد کا اجلاس منعقد ہوگا، اس میں آگے کا لائحہ عمل طے کریں گے۔ یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ مزید پختونوں کا خون کسی صورت نہیں بہنے دیا جائے گا۔ پی ٹی آئی کو بھی دعوت دے رہے ہیں کہ اس اتحاد میں شامل ہو لیکن عمران خان کسی کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔

 

 عمران خان کا کام افراتفری پھیلانا ہے، سب جانتے ہیں کہ چار سال میں ملک کا کیا حشر کیا؟ اس موقع پر صوبائی صدر ایمل ولی خان نے ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا بھی اعلان کیا۔